گاندھی بننے کی ناکام کوشش!

 نہال صغیر
ہم بہت ساری باتوں میں گاندھی جی سے اتفاق نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود ایک بات تو طے ہے کہ کوئی شخص بیک وقت ناتھو رام گوڈسے اور گاندھی نہیں بن سکتا ۔اسے دونوں میں سے ایک کا انتخاب بہر حال کرنا ہی ہوگا ۔ہمارے وزیر اعظم بھی عجیب شخصیت کے مالک ہیں وہ بیرون ملک جاتے ہیں تو گاندھی جی کی دہائی دیتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میں گجراتی ہوں کاروبار ہمارے خون میں ہے ۔تاجر کو پتہ ہے کہ کہاں کیا مال بکتا ہے ۔لیکن بیرون ملک کی طرح اندرون ملک اب بھی گاندھی نام کا سکہ ہی چلتا ہے ۔حالانکہ ان کے ہمنواؤں نے بہت کوشش کرکے دیکھ لیا لیکن گوڈ سے کا سکہ کہیں کوئی قبول کرنے کو راضی ہی نہیں ہوا ،الا ماشاء اللہ ۔گاندھی اور گوڈسے میں وہی فرق ہے جو کہ کسی صحرا اور نخلستان میں ہو سکتا ہے ۔گاندھی جی کو دنیا امن کے پیامبر کے طور پرجانتی ہے تو ناتھو رام گوڈسے کو امن کے دشمن کے طور پر جانا جاتا ہے ۔مودی جس پارٹی یا تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اس نے اپنے مکروہ عزائم کو کبھی نہیں دبایا کھلے عام اس کا اظہار کیا اس لئے دنیا ان کے بارے میں بخوبی واقف ہے ۔جب کوئی شخص مغربی جمہوریت کے مرہون منت سربراہ مملکت منتخب ہو جاتا ہے تو اسے کچھ پروٹوکول دینے ہوتے ہیں ۔اسی پروٹوکول کے تحت انہیں امریکہ سمیت دنیا بھر میں جانے کے اجازت نامے (ویزہ) ملنا شروع ہو گئے۔جو کہ ایک دہائی تک بند تھا ۔لیکن ان کے بیرون ملک دورے کیلئے ویزہ کا مل جانا یہ ثابت نہیں کرتا کہ دنیا نے ان کی جانب سے آنکھیں موند لی ہیں ۔
وزیر اعظم نے تازہ تنازعہ کھادی ویلیج انڈسٹریز کمیشن کی ڈائری اور کلینڈر میں اپنا فوٹو چسپاں کروا کر پیدا کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی تنازعات کو جان بوجھ کر قائم رکھنا اور اسے ہوا دیتے رہنا چاہتے ہیں ۔
یہ جان بوجھ کر اٹھایا گیا قدم ہے اسے بھول چوک والی فہرست میں نہیں رکھا جاسکتا ۔لیکن اس کے پیچھے کے مقاصد شاید یہ ہیں کہ ملک میں عوام کے جذبات گاندھی جی کے تئیں کیا ہیں، یہ جاننا ہے ۔اگر انہیں لگے گا کہ گاندھی جی کو ہندوستان کی بنیاد میں سے ہٹا کر اس کی جگہ گوڈ سے کو آسانی سے فٹ کیا جاسکتا ہے توپھر اگلا قدم اس سمت میں اٹھایا جائے گا ۔اسی لئے یہ عارضی ٹیسٹ کیا گیا ہے ۔کھادی کا رواج دیسی مصنوعات کو استعمال میں لانے کی ایک تحریک تھی ۔لیکن یہ تحریک اب اپنی روح سے خالی ہے ۔صرف ایک جسم ہے بس ۔کیوں کہ کھادی اب صرف نیتا لوگ ہی پہنتے ہیں کلف شدہ بالکل جھکاجھک سفید ،بے چارے غریب آدمی کے بس کا تو رہا ہی نہیں کہ وہ اس دیسی لباس اور آزادی کی تحریک کی ایک یاد گار کو زیب تن کر سکے ۔شاید یہی سبب ہے کہ گاندھی جی کے پرپوتے تشار گاندھی نے اسے ختم ہی کردینے کی اپیل کرڈالی ہے ۔تشار گاندھی کی اس اپیل میں ان کا درد جھلکتا ہے ۔یہ درد کھادی ویلیج انڈسٹریز کے مقاصد کی ناکامی بھی ہے اور مودی جیسے شخص کا جن پر گجرات 2002 کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام بھی ہے ،گاندھی جی جیسے اہنسا کے مبلغ کی جگہ لینے کی ناکام کوشش کا بھی ہے ۔
آخر وہ گاندھی جی کی جگہ لے بھی کیسے سکتے ہیں جنہوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے خود کووزیر اعظم کہلانے کے بجائے پردھان سیوک یا عظیم خدمت گار اور ملک کا چوکیدار کہنے کی اپیل کی ہو لیکن کچھ مہینے نہیں گزرے جب ان کا مافی الضمیرروزبروز عوام کے سامنے ظاہر ہو تا گیا ۔یہاں تک کہ پردھان سیوک جی نے دس لاکھ کا سوٹ پہن کر یہ ثابت کردیا کہ وہ امریکہ کے صدر کا بھی ریکارڈ توڑ دینا چاہتے ہیں ۔غور کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جس کپڑے کو ایک بار پہنے ہیں پھر دوبارہ اسے زیب تن نہیں کرتے ۔رپورٹ یہ بھی ہے کہ ایک دن میں تین سوٹ بدلتے ہیں ۔ڈی این اے اخبار کی ایک خبر کے مطابق اب تک انہوں نے ستر کروڑ سے زائد کی رقم کے لباس زیب تن کئے ۔یہ اس ملک کے پردھان سیوک کی شاہ خرچیوں کی داستان کا ایک ہلکا سا نمونہ بھر ہے جس میں یونی سیف کی رپورٹ کے مطابق پیدائش سے پانچ سال تک کی عمر کے چھ لاکھ ساٹھ ہزار بچے سالانہ قابل علاج مرض میں بروقت اور مناسب ادویہ نہیں ملنے یا مناسب غذا کی قلت سے مر جاتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے بتایا گیا کہ گاندھی جی کی سادگی اور مودی کی شاہ خرچی اور دکھاوا میں فرق محسوس کیا جاسکے ۔فوٹو دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی چرخہ پر سوت ایک مشن کے تحت کات رہے ہیں جبکہ مودی جی محض نمائش شہرت اور ریا کاری کے لئے فوٹو سیشن کے طور پر چرخہ کے سامنے بیٹھے ہیں ۔ان کے بیٹھنے کے انداز سے ہی اناڑی پن ظاہر ہوتا ہے ۔گاندھی جی نے کبھی خود کو مہاتما یا باپو کہنے کی فرمائش نہیں کی لیکن مودی جی نے پردھان سیوک اور چوکیدار بول کر شہرت حاصل کی ،میڈیا میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کی لیکن ان دو الفاظ کے معیار پر انہوں نے اپنی شخصیت کو کبھی ڈھالنے کی کوشش نہیں کی ۔
اپنا تبصرہ لکھیں