کیا یہ لوگ ہیرو نہیں ہیں؟

یہ نعمان خان ہے، اسسٹنٹ لائن مین، بجلی ہی کے جھٹکوں سے شہید ہوجانے والے اپنے باپ کی جگہ پیسکو واپڈا میں بھرتی ہوا تھا اور آج بوڑھی بیوہ ماں کا سہارا گیارہ ہزار وولٹ کی تاروں سے جھٹکے کھا کے اپنے دونوں بازووں اور ایک ٹانگ سے مکمل محروم ہو بیٹھا۔ لیسکو ‏سمیت کتنی ہی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں ہزاروں نعمان خان ڈیلی ویجرز بھی ہیں کیونکہ حکمرانوں کے پاس انہیں دینے کے لئے تنخواہیں نہیں ہیں۔

تمام سرکاری و پرائیویٹ اداروں پر تو وردی والوں کا قبضہ ہے۔ ڈیفنس بجٹ ہے کہ کھربوں کا ہونے کے باوجود کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آۓ روز اس ملک کو ایک ہی مسئلہ درپیش ہے کہ کیسے فوج کے الاؤنسز اور بجٹ کو مزید بڑھایا جا آکے تاکہ جرنیلوں اور دیگر فوجی افسران کی تجوریاں مزید بھری جا سکیں۔ کیسے فوجیوں کو مزید رقبے دیے جا سکیں، کیسے فوج کی کھربوں ڈالروں کی کرپشن پر پردہ ڈالا جا سکے اور ان سب میں پستا کون ہے؟ غریب عوام۔ جن پر ہر دوسرے روز مہنگائ اور بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تاکہ ان کی تنخواہوں سے فوج کی عیاشیاں پوری کی جا سکیں۔ تو ایسے میں آپ بلڈی سویلیینز کے لیے حکومت کے پاس دینے کو کون سے پیسے ہوں گے؟

اصل ہیرو اور شہید تو یہ محنت کش بلڈی سویلیین ہیں جو بغیر بندوق، ٹینک اور گولی کی دھونس کے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انکو تو نہ ہی ملازمت کے دوران اور نہ ہی ریٹائرمنٹ پر ایک انچ رقبہ بھی نہیں ملتا، نہ ہی تا حیات پینشن لگتی ہے، نہ ہی ڈرائیور، گاڑی اور ملازمین ملتے ہیں، نہ ہی شاندار کلبز کی فری کی ممبرشپ ملتی ہے، نہ ہی ہسپتالوں میں فری علاج معالجے کی سہولیات اور نہ ہی انکے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں اعلی تعلیم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔

وطن کی ہواوں کو اسے بھی سلام کہنا چاہیئے، کوئی ترانہ اس کے لئے بھی ہونا چاہیئے جس کی وجہ سے آپ کے گھر اندھیری راتوں میں بھی روشن ہیں اور ‏گرمیوں کے ان دنوں میں کمرے یخ ٹھنڈے۔ یہی تو ہیں جو واپڈا کے ناقص اور بوسیدہ نظام کو فول پروف حفاظتی انتظامات کے بغیر چلا رہے ہیں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے فوجی افسران ، ان غریب محنت کشوں کے محکموں کے انچارج بن کر بیٹھے ہیں اور انکو تنخواہیں بھی نہیں دیتے۔ ایسے فرسودہ نظام اور غلامی پر لعنت بھیجنی تو بنتی ہے۔.
#CopieD

اپنا تبصرہ لکھیں