کیا یہ عمران خاں کی سیاست کا آخری مہینہ ہوگا؟

محمد عبد الحمید، یکم دسمبر

جس کسی نے 2013 الیکشن کے بعد عمران خاں کو دھاندلی کے خلاف آئینی اور قانونی جدو جہد پر لگایا، اس نے ان کا ایک سال ضائع کرا دیا۔ جس نے انھیں پرامن دھرنہ پر آمادہ کیا، اس نے چھ ماہ ضائع کر دیئے۔ اب جس نے انھیں ایک ایک شہر اور پھر سارا ملک بند کرنے پر اکسایا ہے، وہ اسی مہینہ ان کی سیاست ختم کرا دے گا۔ خاں صاحب آنہ والی جگہ پہنچ جائیں گے۔ (’’آنہ والی جگہ‘‘ کی وضاحت تجزیہ کے آخر میں)

خاں صاحب کو ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں آئی کہ وہ صرف ن لیگ حکومتوں سے نہیں لڑ رہے۔ اگر یہ صورت ہوتی تو وہ کبھی کے انھیں گرا چکے ہوتے۔ ان کے لیئے خاندان شریفاں کے ساتھ دو محاذ اور بھی ہیں۔ اول، ان کی پارٹی کے ڈبل ایجنٹ، جو بیرونی اشاروں پر انھیں گمراہ کرتے ہیں۔ دوسرے، وہ جو ان دونوں کا سرپرست ہے۔

عمران خاں کو شائد معلوم نہیں کہ وہ صرف پچھلے سال کے انتخابات میں دھاندلی کی تفتیش کے لیئے نہیں لڑ رہے۔ دراصل، ان کی جد و جہد ملک کی بیرونی اثرات سے حقیقی آزادی کے لیئے ہے اور ان کا راستہ روکنے والے اتنے کمزور نہیں کہ پرامن کوششوں سے ہار مان لیں۔

ان کا اصل مقابلہ امریکہ سے ہے، جو ہمارے نااہل اور بددیانت سیاست کاروں کا سرپرست ہے، جو ہمارا استحکام اور ہماری ترقی نہیں چاہتا اور جو ہمیں ہمارے سب سے بڑے دشمن کا طفیلی بنانا چاہتا ہے۔ یہ امریکہ کچی نوکری والوں کا ہے، جو واشنگٹن کے سفید محل، وزارت خارجہ اور کانگرس میں کام کرتے ہیں۔

ان کچی نوکری والوں نے ہماری تباہی کے لیئے 15 سالہ منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے تحت صدر پرویز مشرف کو استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ پھر مقامی ایجنٹوں کی مدد سے پ پارٹی کو حکومت دلائی گئی۔ اگلے پانچ سال کے لیئے ن لیگ کو اقتدار دلانا مشکل نظر آیا تو بہت بڑی دھاندلی کرائی۔ اس کے بعد پھر پانچ سال کے لیئے پ پارٹی کو حکومت میں لانا تھا۔

یوں اپنے پٹھوئوں کے ذریعہ 15 سال میں معیشت تباہ کر دی جاتی، ایٹمی پروگرام ختم کرا دیا جاتا، مسلح فوج کو (نواز شریف کے الفاظ میں) قومی رضاکار کی حیثیت دے دی جاتی، عوام کا جینا اتنا دوبھر کر دیا جاتا کہ ملک انارکی کا شکار ہو جاتا۔ پھر ہندوستان کو ہماری معیشت اور (میڈیہ کے ذریعہ) ثقافت پر غالب کر کے سب سے طاقتور مسلم ملک کو ناکام ریاست اور دوسرے مسلم ملکوں کے لیئے عبرت کی مثال بنا دیا جاتا۔ افغانستان اور عراق کی طرح فوج کشی سے گریز کیا جاتا کیوں کہ ڈر تھا کہ اس صورت میں ایٹم بم ہندوستان پر اور حزب اللہ کے ذریعہ اسرائیل پر چلا دیئے جاتے۔ (اب ہمارے پاس ٹینس گیند جتنے ایٹم بم بھی ہیں۔)

عمران خاں نے دھرنہ کا اعلان کیا تو ان کے ساتھ عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، جمیعت المسلمین اور ق لیگ بھی تھیں۔ آثار تھے کہ چند دنوں بعد جماعت اسلامی، م۔ ق۔ م۔ (متحدہ قومی موومنٹ) بھی شامل ہو جائیں گی۔ یہ اتحاد بن جاتا تو حکومت گرانے میں کامیابی یقینی تھی۔

عمران خاں غلط راہ پر

کچی نوکری والے عمران خاں کو تنہا کرنے کے لیئے سرگرم ہو گئے۔ ایک ایک کر کے ساتھ دینے اور ہمدردی رکھنے والی ہر جماعت کو توڑ لیا گیا۔ آخر میں طاہر القادری بھی دھرنہ سمیٹ کر چل دیئے۔ جماعت اسلامی، جس کی سرپرستی امریکہ مولانا مودودی کے زمانہ سے کر رہا ہے، مذاکرات کا چکر چلا کر عمران خاں کو نواز شریف کی خاطر رام کرنے میں لگ گئی۔ اب بھی سراج الحق دام پھینک رہے ہیں کہ ملک گیر ہڑتال سے پہلے ہی سمجھوتہ کرا دیں گے۔

امریکہ کے کچی نوکری والوں کے مخالفت میں پکی نوکری والے ہیں (مسلح افواج، خفیہ ایجنسیاں) جنھوں نے الیکشن نہیں لڑنا ہوتا اور امریکہ کے مستقبل بعید کے مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کا سیاسی اور معاشی استحکام خود امریکہ کے مفاد میں ہے۔ چنانچہ انھوں نے 15 سالہ منصوبہ بیچ ہی میں ناکام بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی لیئے طاہر القادری کو پچھلے سال بھیجا گیا اور دھرنہ کے بعد حکمرانوں سے معاہدوں پر دستخط کرائے تاکہ صاف ستھرے انتخابات میں تحریک انصاف اقتدار میں آئے۔ کچی نوکری والے ہار مان لیتے لیکن خاندان شریفاں نے ان کے گٹے گوڈے پکڑ کر اور منتیں کر کے انھیں مزاحمت پر آمادہ کر لیا۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کچی نوکری والوں ہی نے کرایا۔ افتخار چودھری، اشفاق کیانی، وغیرہ، کی مدد سے بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کرائی گئی۔ جب عمران خان نے یقینی فتح کو شکست میں تبدیل ہوتے دیکھ کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا تو ان کی پارٹی میں اپنے ایجنٹوں اور دوسروں کے ذریعہ انھیں قانونی کاروائی پر لگا دیا۔ پھر پرامن دھرنہ پر بٹھا دیا گیا۔ بھولے خاں صاحب فخر سے دعوی کرتے پھرتے ہیں کہ ان کا دھرنہ دنیا کا سب سے طویل تھا۔ یہ فخر نہیں ماتم کا مقام ہے۔ جنھوں نے اپنا مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے وہ صرف چند دن کا دھرنہ دیتے ہیں اور تبدیلی لے آتے ہیں، ان کی طرح سڑک پر نہیں بیٹھے رہتے اور محض تقریروں اور نعروں سے حکومت گرانے کی کوشش نہیں کیا کرتے۔ کبھی لاتوں کے بھوت باتوں سے بھی مانا کرتے ہیں؟

اب خاں صاحب کو شہر شہر ہڑتالیں کرانے پر لگا دیا گیا ہے۔ ہڑتال کوئی نئی بات نہیں۔ یہ صرف ایک دن کا مسئلہ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں آئے دن کراتی رہتی ہیں۔ کامیاب بنانے کے لیئے ان کے پاس ڈنڈہ فورس بھی ہوتی ہے۔ آپ کے پاس کیا ہے، جس سے نہ ماننے والوں سے ہڑتال کرا لیں گے؟

وہی حیلے ہیں پرویزی

خاں صاحب کو سیاست کی چالیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرض کریں جوڈیشل کمشن بنا دیا جاتا ہے۔ خاں صاحب کو کیوں خوش فہمی ہے کہ ان کی مرضی کا ہی بنے گا اور دھاندلی پر ان کے موقف ہی کو درست قرار دے گا؟ یاد رکھیں کوئی غیرجانبدار نہیں ہوتا ورنہ انصاف لینے کی راہ میں اتنی رکاوٹیں نہ ہوا کرتیں۔ (فخرالدین ابراہیم کو بھی تو آپ غیرجانبدار ہی سمجھتے تھے، نا؟)

اول تو ضروری نہیں جوڈیشل کمشن چار چھ ہفتوں ہی میں کام ختم کر لے۔ (کیا الیکشن ٹریبیونل 120 دنوں میں عذرداریوں پر فیصلہ کر دیتے ہیں؟) کر بھی لے تو اس کی رپورٹ جاری کرنے کی جلدی نہ ہوگی۔ وہ بھی ہو جائے تو حکومت کہے گی کہ پہلے مردم شماری کرانا ضروری ہے، جو 2011 میں ہونی تھی۔ اس کے بغیر نہ حلقہ بندیاں ہو سکتی ہیں اور نہ ووٹر لسٹیں درست کی جا سکتی ہیں۔ مردم شماری سال بھر کا کام ہے۔ مارچ اپریل میں خانہ شماری ہوتی ہے اور ستمبر اکتوبر میں مردم شماری۔ پھر اس کی رپورٹ تیار ہوگی۔ اس کے آنے کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی۔ ان پر اعتراضات ہوں گے۔ ان کی سماعت ہوگی۔ پھر ووٹر لسٹوں کی تصحیح کرنے کا مرحلہ آئے گا۔

اس دوران حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی۔ انتخابات سے متعلق قوانین اور ضوابط میں ترامیم پارلیمانی کمیٹیوں میں لٹکتی رہیں گی۔ پارلیمنٹ میں سب وہ ہیں جو کوئی اصلاحات نہیں چاہتے۔ خاں صاحب کیسے کام جلد ختم کرائیں گے؟ ان کے ارکان تو مستعفی ہو چکے۔ وہ کسی کمیٹی میں نہ ہوں گے۔ ہوئے بھی تو کیا کر پائیں گے؟ پھر کیسے دبائو ڈالیں گے؟ پھر سے دھرنہ کی دھمکی دیں گے؟

جتنے مرحلوں کا ذکر کیا گیا ہے، انھیں طے کرتے کرتے حکومت دو تین سال گزار سکتی ہے۔ پھر کہنے لگے گی کہ سال ڈیڑھ ہی تو رہ گیا ہے۔ میعاد پوری ہو لینے دیں۔ پھر الیکشن میں زور آزمائی کر لیں، جو موجودہ نظام کے تحت ہی ہوں گے۔ پھر پ پارٹی ہی کو باری ملنا کیسے روکا جائے گا؟

خان صاحب صورت حال کا یکسوئی سے جائزہ لیں۔ دھرنہ، جلسوں اور ہڑتالوں سے صرف عوام اور کارکنوں کو زحمت ہوتی ہے۔ حکومت کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا۔ جلد ہی بھڑکائے گئے جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ کامیابی نظر نہیں آئے گی تو لوگ تحریک انصاف کو بھی تحریک استقلال سمجھنے لگیں گے۔ وہی چور ڈاکو حکومت میں رہیں گے اور اگلے الیکشن میں بھی ان کے بھائی بند ہی ان کی جگہ لے لیں گے۔

تبدیلی کا قابل عمل منصوبہ

اگر عمران خان اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی کور کمیٹی معطل کر دیں۔ سرگوشیاں کرنے والوں، بغیر پوچھے مشورہ دینے والوں اور بات بات پر ٹانگ اڑانے والوں کو اپنے سے دور کریں۔ صرف انھیں اپنے پاس رکھیں جو آپ کے کہنے پر پوری طرح اور خلوص سے عمل کریں۔

اس کے بعد شہر بند کرانے کا منصوبہ فورا ترک کر دیں۔ اس کی بجائے صرف چند مقامات پر دھرنوں سے ریل اور سڑک پر پہیہ جام کریں، لیکن اس طرح کہ

·       صرف ٹرکوں اور کنٹینروں کو روکا جائے، نہ کہ بسوں، ویگنوں اور نجی ٹرانسپورٹ کو، تاکہ عوام کو کم از کم زحمت ہو،

·       عمل درامد کے لیئے کم از کم کارکنوں کی ضرورت پڑے، اور

·       اس وقت تک جاری رکھیں جب تک حکمران مستعفی نہ ہو جائیں۔

پہیہ جام سے ٹرانسپورٹ کی شاہ رگ بند ہو جائے۔ اس سے بڑے کاروباری اور صنعتی اداروں کو بھاری نقصان ہوگا۔ یہی طبقہ ہے جن کی حمائت پر ن لیگ انحصار کرتی ہے۔ ان کا حکومت پر زبردست دبائو پڑے گا، اور استعفا تک نوبت پہنچ جائے گی۔

صرف ان مقامات پر ریلوے اور سڑک کے پلوں پر دھرنہ دیا جائے:

:کوٹری اور حیدراباد کے درمیان

سکھر اور روہڑی کے درمیان

بہاولپور اور لودھراں کے درمیان

لاہور اور شاہدرہ کے درمیان

وزیراباد اور گجرات کے درمیان

کالاباغ کے قریب سندھ دریا پر

اٹک کے قریب سندھ دریا پر

پلوں پر دھرنے کامیاب کرانے کے لیئے صرف چند ہزار کارکنوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر پولیس ہٹانے کی کوشش کرے تو وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ ہر مقام پر ٹیلی ویژن کیمرے موجود ہوں تاکہ سب کچھ دنیا کو دکھایا جا سکے۔ دھرنے ختم کرنے کے لیئے کسی کی نہ سنی جائے۔ جو کرانا چاہے اسے صاف کہہ دیں کہ اپنا مشورہ اپنے پاس رکھے۔ کسی کی دھمکی کی پروا نہ کی جائے۔

اگر خاں صاحب حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد امریکہ کے کچی نوکری والوں کے پیر اکھڑ جائیں گے۔ سیاست کار سمجھ جائیں گے کہ امریکہ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنا یا برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ جو ان کا ساتھ دے گا عوام اسے ملک کا غدار سمجھیں گے۔ الیکشن میں دھاندلی ختم ہو جائے گی اور احتساب کے بعد چور ڈاکو بھی اقتدار میں نہ آ سکیں گے۔ یوں ہم پہلی دفعہ امریکہ کی غلامی سے نکل جائیں گے۔ یہ آزادی شفاف انتخابات سے کم اہم نہ ہوگی۔

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آنہ والی جگہ

ایک پرانی پنجابی فلم میں بچہ باپ کے کان میں کہتا ہے، ’’ایک آنہ دے دیں۔‘‘ باپ نہیں دینا چاہتا۔ کہتا ہے، ’’مجھے سنائی نہیں دیا۔‘‘ بچہ دوسرے کان میں کہتا ہے، ’’دو آنے دے دیں۔‘‘ باپ جواب دیتا ہے، ’’آنہ والی جگہ واپس آ جائو۔‘‘

عمران خاں سیاست میں آنے سے پہلے شوکت خانم ہسپتال میں مصروف تھے۔ اگر وزیر اعظم بننے کے لیئے سیاست ختم ہو جانے تو واپس اسی کام میں لگ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں