کیا ایٹم بم کا شب برات اور دیوالی سے کوئی رشتہ ہے؟

سہیل انجم
ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ بی جے پی کے پاس اپنی کامیابیوں کا شمار کرانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے ایسے ایشوز اچھالے جا رہے ہیں جن کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ انتخابی موضوعات کی قلت کی وجہ سے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو اہم اور اصل ایشو بنا لیا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اسے خوب اچھالا جا رہا ہے۔ پہلے پلوامہ اور بالاکوٹ کے نام پر ووٹ مانگے گئے اور اب وزیر اعظم نے ایٹم بم کا ذکر چھیڑ دیا۔ انھوں نے باڑمیر کی ایک انتخابی ریلی میں پاکستان پر برستے ہوئے کہا کہ اب ہندوستان نے اس سے ڈرنے کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ اب تک پاکستان بار بار ایٹم بم کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ یہاں کے اخبارات بھی یہی لکھتے رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہے۔ پھر عوام سے سوال کیا کہ کیا ہمارے ایٹم بم دیوالی کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر عوام نے تالیوں سے ان کے اس جملے کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے اس کے علاوہ بھی کئی باتیں کہیں۔ جیسے کہ میری دھمکی کی وجہ سے پاکستان نے پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا تھا۔ ان کے مطابق ایک امریکی عہدے دار نے کہا تھا کہ مودی نے بارہ میزائل تیار کر رکھے ہیں۔ وہ قتل کی رات تھی۔
ان کے اس بیان پر فطری طور پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ اخباروں نے اداریے لکھے ہیں اور ان کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے۔ پوری دنیا میں اسے ایک سمجھدار ایٹمی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں پوری دنیا میں ہندوستان کی ایک ساکھ ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو معلوم ہے کہ ایٹمی لڑائی کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اسی لیے اس نے پہلے ایٹم بم استعمال نہ کرنے کی ایک پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یہ پالیسی شروع سے ہی جاری ہے۔ یعنی ہندوستان پہلے نیوکلیر بم استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن اگر کسی نے ہمارے خلاف نیوکلیر بم استعمال کیا تو ہم بھی اس کا اسی طرح جواب دیں گے۔ لیکن مودی کے بیان سے کئی شبہات جنم لے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا اب ہندوستان اپنی وہ پالیسی ترک کر رہا ہے یا اس سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یعنی اب وہ خود ہی پہلے ایٹم بم استعمال کر سکتا ہے۔ حالانکہ اس پالیسی پر ملک کے کئی وزرائے اعظم قائم رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اس کا اعادہ کیا ہے کہ ہم نے پہلے ایٹم بم استعمال نہ کرنے کی پالیسی اپنے اوپر نافذ کر رکھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے اس بیان سے دنیا میں ہندوستان کی ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہونے کی ساکھ کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔ اس سے انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی پلڑے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں پوری دنیا میں یہ ایک عام رائے ہے کہ وہ اگرچہ ایک ایٹمی قوت ہے لیکن وہ ذمہ دار ملک نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی ایٹم بم استعمال کرنے کی حماقت کر سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اس کی پوری زندگی کا نصف حصہ مارشل لا کے تحت گزرا ہے اور وہاں کا مزاج بھی دوسرا بن گیا ہے یعنی غیر جمہوری بن گیاہے۔ سویلین حکومت کے دوران بھی فوج ہی کی بالادستی رہتی ہے اور اہم فیصلے فوج ہی کرتی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ایٹم بم شب برا ¿ت کے لیے نہیں ہیں۔ جبکہ دوسرے رہنما بھی ایٹم بم کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار ایٹمی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب جبکہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے ایٹم بم دیوالی کے لیے نہیں ہیں تو گویا انھوں نے ہندوستان کو پاکستان کے مساوی لا کر کھڑا کر دیا۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے ایک سابق مدیر شیکھر گپتا نے اخبار ہندوستان ٹائمس میں اسی موضوع پر ایک کالم لکھا ہے اور اس نتیجے پر انھوں نے اسے ختم کیا ہے کہ ہندوستان نے ایٹمی طاقت ہونے کی حیثیت سے دنیا میں اپنی جو ساکھ بنائی تھی وزیر اعظم مودی نے مذکورہ بیان دے کر اور حقیر انتخابی فائدے کے لیے اس کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی مثالیں دی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 2002 میں اس وقت کے پاکستانی حکمرا ںجنرل پرویز مشرف نے کئی میزائلوں کا تجربہ کیا تھا جن کے نام غوری، غزنی، عبدالی اور بابر ہیں۔ اس کے بعد اس وقت کی ہندوستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نروپما راو ¿ سے جب یومیہ بریفنگ میں اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کے اس قدم کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہے۔ (We Are Not Impressed) شیکھر گپتا کہتے ہیں کہ یہ چار الفاظ پاکستان پر بھاری پڑ گئے۔ وہ جھنجلا گیا۔ شیکھر گپتا نے ایک اور مثال دی ہے۔ جب اندرکمار گجرال ہندوستان کے وزیر خارجہ تھے تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاحب زادہ یعقوب خان نے دہلی کا دورہ کیا اور ان سے کہا کہ جنگ کا آغاز مت کیجیے گا۔ورنہ ایسی آگ لگے گی کہ دریا، پہاڑ، جنگل سب کچھ جل جائے گا۔ اس پر گجرال صاحب نے ان سے کہا تھا کہ صاحب زادہ یعقوب صاحب جن دریاو ¿ں کا پانی آپ نے پیا ہے انھی کا ہم نے بھی پیا ہے۔ اس جملے پر پاکستانی وزیر خارجہ لاجواب ہو گئے تھے۔
در اصل یہ لوگ سفارت کار تھے۔ ڈپلومیسی جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ کب کیسی زبان بولی جائے۔ نروپما راو ¿ ہوں یا آئی کے گجرال وہ سیاست داں نہیں تھے۔ انھوں نے پوری زندگی سفارت کاری کی تھی۔ وہ جاتنے تھے کہ کس معاملے سے کیسے نمٹا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ لیکن نریندر مودی سفارت کار نہیں ہیں۔ وہ سیاست داں ہیں اور ایسے سیاست دا ںکہ اپنی جیت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے سفارتی زبان بولنے کے بجائے سیاسی زبان میں بات کی جس پر رد عمل ہونا فطری تھا۔ انھوں نے اس انتخابی مہم میں جس طرح فوج کے نام کا استعمال کیا ہے وہ بڑے پیمانے پر تنقید کا شنانہ بنا ہے۔ خود درجنوں سابق فوجی عہدے داروں اور سابق سربراہوں نے صدر کے نام اپنے خط میں اس پر اظہار تشویش کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ انتخابی مہم میں فوج کو نہ گھسیٹا جائے۔ لیکن ابھی تک نہ تو صدر نے کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے۔ فوجیوں نے کمیشن سے بھی ایسی ہی درخواست کی تھی۔ لیکن وزیر اعظم مودی کو پوری آزادی ہے کہ وہ جیسے چاہیں فوج کا نام استعمال کریں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ لیکن افسوس ان سابق فوجی افسروں پر ہے جو مودی کی باتوں کی یا تو تائید کرتے ہیں یا ان سے تائید کرائی جاتی ہے۔ نیوز چینلوں پر بھی ایسے سابق فوجی عہدے دار نظر آتے ہیں جو مودی کی اس پالیسی کی طرفداری کرتے ہیں۔ مودی کے بیان پر ایک نیوز چینل پر ایک سابق فوجی افسر نے کہا کہ مودی کو یہ بات اور پہلے کہنی چاہیے تھی اور اسے بی جے پی کے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے ہندوستان کے پہلے نیوکلیر بم استعمال نہ کرنے کی پالیسی کی بھی مخالفت کی۔ گویا سابق فوجیوں میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو سیاسی گفتگو کرتے ہیں۔ در اصل جب سے فوج کا نام سیاست میں گھسیٹا جانے لگا ہے اس وقت سے لوگوں کی سوچ بدلنے لگی ہے۔
بہر حال نریندر مودی نے ایٹم بم کا ذکر چھیڑ کر ایک نئے تنازعے کو ہوا دے دی ہے۔ سنجیدہ طبقات ان کے بیان کی مخالفت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے اور

اپنا تبصرہ لکھیں