(کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں)

آپ نے یہ منقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتا ہوگا ۔
کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے،
ایک دن معملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتے تھے)
بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا
وائسرائے۔ نام؟
کھڑک سنگھ’
وائسرائے۔ تعلیم؟
کھڑک سنگھ۔ “تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟”
وائسرائے ہنستے ہوئے ‘سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے’؟
کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے ” بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں”
وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جن نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔
اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،،
کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی ۔
جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے ۔
۔
ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا ‘مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے’
جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی- “سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں رانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا”
جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا ‘کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا’؟
دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا ‘نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھایا تھا”
کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟
پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لاڈ رکھئے “یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟
جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟
‘جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے’ پولیس والے نے جواب دیا۔
تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے ۔
فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ)
پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی ہر لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کامپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہیں ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔
اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہوجاۓ گی

اپنا تبصرہ لکھیں