کچھ یادیں کچھ باتیں

کچھ یادیں
ھ باتیں راشد اشرف
کراچی سے

عجیب ظلم کی بات ہے کہ میں اپنے ایک دشمن نما بے مثل دوست کو بھولے جارہا ہوں جس کا نام بابو راو پٹیل ہے۔ فلم انڈیا میگزین کا اڈیٹر۔یہ آدمی عجیب و غریب آدمی ہے۔یہ کیا ہے، یہ خود نہیں جانتا۔ یہ بھٹکا ہوا دماغ بے, مثل و بے نظیر انگریزی لکھتا ہے۔ اس کے لکھنے میں آگ ہی آگ ہے۔ یہ نہ معلوم کس حرکت پر، شاید بچپن میں کسی سے بگڑ چکا ہے جس کا بدلہ غصے میں آکر ہر ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سے لینا چاہتا ہے۔ اس کے صحبت میں بیٹھ کر آپ محسوس کریں گے کہ آپ ابھی زندہ ہیں، مرے نہیں۔
سخت ترین ہندو مسلم کشمکش کا زمانہ۔ پاکستان بن چکا تھا۔ اس کا باورچی مسلمان اور کٹر قسم کا۔ میں نے ایک دن پوچھا بیٹا یہ کہیں زہر نہ دے دے کھانے میں، پورا گھرانہ میٹھی نیند سو جائے گا۔
بابو راو کہنے لگا: تو مسلمان ہے، یہ بھی نہیں جانتا کہ مسلمان سامنے سے آکر لڑتا ہے، چوری چھپے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک زمانے میں جب ہم مڈل ایسٹ سے سخت مفلس ہوکر پلٹے ہیں تو ہر دوست کو پرکھ کر دیکھ لیا۔ نہ ہندو دوست کام آیا، نہ مسلمان۔ ہم ایک دن لائن میں کھڑے بس کا انتظار کررہے تھے ۔ جیب میں صرف ایک روپیہ تھا۔ بابو راو پٹیل اپنے بڑے موٹر پر گزرا۔ مجھے دیکھ کر موٹر روکی۔ پہلا جملہ یہ تھا:
ٹیکسی کیوں نہیں لی تو نے ؟
میں نے کہا: تیرا اجارہ ہے، نہیں لی۔
کہنے لگا : مفلس ہورہا ہے آج کل ؟
میں نے جل کر کہا: تجھ سے کیا کمینے
اور اس نے گھسیٹ کر موٹر میں بٹھا لیااور آیہستہ آہستہ ہمیں کھلوا ہی لیا اور ہم کھلے۔ کچھ انکم ٹیکس اور کچھ گھر کے خرچ کے لیے چند ہزار کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت۔
کہنے لھا: کل دن کے کھانے پر آجائے گا روپیہ۔ روتا کیوں ہے، میاں بھائی بن۔
میں نے کہا: ابے بہت دیکھے ہیں تیرے ایسے۔ جب کٹر قسم کے مسلمان دوست کام نہ آئے تو ہندو کیا کام آئے گا ؟
صاحب دوسرے دن کھانے پر بیٹھے ہی تھے کہ گھنٹی بجی اور اس کا ڈرائیور ہزاروں روپے کا چیک دے گیا۔ اور اس کمبخت کافر نے کبھی پلٹ کر روپوں کا تقاضہ ہی نہیں کیا۔ جب بھی فراہم ہوا، میں نے تھوڑا تھوڑا کرکے دیا ، پھر بھی کچھ ضرور باقی رہ گئے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ احمد عباس کی بیوی مجی، کیسے کہوں کہ مرگئی۔ بیحد پڑھی لکھی، دھان پان، ہمیشہ کی بیمار، مگر اک شگفتہ کلی، جو ایک تبسم کے لیے نہیں کھلی تھی بلکہ جس نے تبسم کو اپنی زندگی بنا لیا تھا اور زبان کی گل فشانی ؟ توبہ توبہ۔ ہزار محبوب ایک طرف اور اس کی کوثر میں دھلی ہوئی پاکیزہ او ر ستھری زبان ایک طرف۔ ایک دن میں نے چھیڑنے کو پوچھا ۔آخر آپ نے کیا سمجھ کر خواجہ احمد عباس سے شادی کی ؟۔ایک ایسی معصوم مسکراہٹ کے بعد جواب ملا کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔ کہنے لگیں صرف ایک وجہ سے، کیونکہ باچھو، جو خواجہ صاحب کا پیار کا نام ہے، گنجے ہیں اس لیے میں نے ترس کھا کر شادی کرلی۔ میں نے مسکرا کر کہا: میں باچھو سے زیادہ گنجا ہوں، مجھ پر کیوں ترس نہ آیا حضور کو ؟ ۔کہنے لگیں: آپ گنجے ضرور ہیں مگر کشمیری خطرناک گنجے ہیں، یہ تو میں اپنی زبان سے نہیں کہتی کہ بدذات بھی ہیں۔
فارسی کے اس شعر کی طرف اشارہ تھا جس کا دوسر امصرع ہے کہ:

اول افغان، دوم کنبوہ، سوم بدذات کشمیری
میں نے کہا آپ نے آخر کہہ ہی دیا
مسکرا کر بولیں: بہت سوچنے کے بعد ہمت کی ہے بدذات کہنے کی۔ سوچتی تھی آپ کے منہ پر نہ کہوں۔ آپ کہیں خوشامد نہ سمجھیں اور کہیں آپ کا دماغ نہ خراب ہوجائے۔

دیر تک میں اس جملے پر ہنستا رہا۔ آج یہ چند سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو یہی جملہ یاد کرکے رو رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیارتوں پر جاتے وقت پانی کے جہاز میں ایک بوڑھے جن کی عمر قریب قریب نوے سال کی ہوگی، سرخ و سفید رنگ کے، جہاز میں گھسے۔ میں عرب سمجھا ۔ مگر فورا ہی ان کے ان کے چہرے کے نقوش ان کے ہندوستانی ہونے کی چغلیاں کھانے لگے۔ میں نے غور سے دیکھا۔ غصے سے کہنے لگے : میرے دوست کو کھا لیا، کیا اب مجھے کھانے کا ارادہ ہے ؟ ۔ میں مسکرا دیا، پاگل سمجھ کر۔ کہنے لگے: وہ کافر مر گیا اور مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گیا۔ میں نے پوچھا: کون ؟ ۔کہنے لگے وہی الہ آباد والا کشمیری، نوابی گئی لیکن میں نے وطن نہیں چھوڑا ، بیوی بچے مرے لیکن وطن نہیں چھوڑا مگر جب سے یہ بے وفا کافر مرگیا ایک ہندوستان میں اپنا نہیں دکھائی دیتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکالی اور میں چونک پڑا۔ یہ ان کی اور موتی لال نہرو کی تصویر تھی۔ فورا میرا دماغ ہندوستان، لکھنو اور الہ آباد ہوتا ہوا کلکتے پہنچا۔ اب کلکتے کے مٹیا برج میں جا کر ٹک گیا۔ بڑا سا مشاعرہ۔ استاد علامہ آرزو، قیامت کے شاعر رضا علی وحشت، ما ئل لکھنوی، سبھی موجود تھے۔ ایک ادھیڑ عمر کا سرخ و سفید رنگ کا آدمی، گیروے کپڑے پہنے اس مشاعرے میں آیا جو جان عالم واجد علی شاہ کے مزار پر بیٹھا کرتا تھا اور یہ مطلع پڑھ کر مشاعرہ لوٹ کر چلا گیا:

کچھ اس طرح کا موافق مرا زمانہ تھا
یہ برق گرتی تھی، یہ میرا آشیانہ تھا

میں نے جھومتے ہوئے جہاز کے کھمبے کا سہارا لیتے ہوئے یہ شعر ان کی طرف دیکھ کر گنگنایا۔ بیک وقت وہ مجھ سے چمٹ گئے ، اور تم تو مجھے جانتے ہو کہہ کر دیر تک روتے رہے۔ اور میں بھی روتا رہا۔ پھر گھوم کر ہم دونوں نے سمندر کی طرف دیکھا جو جو نہ جانے کتنے انقلاب اپنے سینے میں چھپائے ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کربلا پہنچے اور صحیح معنوں میں امام حسین کے روضے پر وہ بے کسی برستے ہوئے دیکھی جس کا جواب شاید ہی کوئی تاریخ دے سکے۔ مجھ سا گنہگار گھنٹوں روضے کو دیکھتا رہتا۔ یہ عدم تشدد کا سچا علمبردار۔ بارہ سو سال قبل کئی لاکھ کے مقابل میں صرف بہتر کو لے کر لڑا۔ تین دن کی بھوک پیاس میں کئی لاکھ سے جنگ کرکے وہ اسلام جو رسول نے پھیلایا تھا اسے تباہ ہونے سے بچا لیا۔ یہی تو خواجہ معین الدین چشتی فرما گئے ہیں:

شاہ است حسین و بادشاہ است حسین
دین است حسین و دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

عجیب بات یہ ہے کہ یہ کم بخت شعیہ سنی کی بحث صرف ہندوستان میں ہے اور مسلم ممالک میں بالکل نہیں ہے۔ اس بات پر مجھے خواجہ حسن نظامی یاد آگئے جن کی قریب قریب ہر تحریر میں نے پڑھی ہے۔ مجھے ان کا رنگ بے تحاشا پسند ہے۔ ایک کانفرنس ہوئی احمد آباد میں۔ شعیہ اور سنی مولوی ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ نہ جانے کیونکر میں بدقسمتی کا مارا، کسی ضرورت سے احمد آباد گیا اور خواجہ صاحب کا نام سن کر وہاں پہنچ گیا۔ جب میں پہنچا ہوں تو یہ کانفرنس شروع ہوچکی تھی۔ شاید کسی سنی مولوی نے حضرت علی کو چوتھا خلیفہ کہہ دیاتھا اور ایک شعیہ مولوی اس پر بگڑ گئے تھے ۔اور قریب قریب یہ کانفرنس درہم برہم ہونے والی تھی کہ خواجہ حسن نظامی کھڑے ہوگئے۔ کیا تقریر کی اس جادوگر نے، آج تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس نے چیخ کر کہا: آپ سب حضرات سے صرف میرا ایمان سچا ہے اور صحیح معنوں میں میں صرف میں مسلمان ہوں۔ مت توہین کیجیے علی ایسی شخصیت کی کہ وہ پہلے خلیفہ تھے یا چوتھے۔ اگر ان کو خلافت نہ بھی ملتی اور خلیفہ نہ بھی ہوتے تب بھی رسول کے بعد دنیائے اسلام کی دوسری اہم ترین شخصیت علی ہی کی ہوتی۔ خلافت نے علی کا مرتبہ نہیں بڑھایا بلکہ علی نے خلافت کا مرتبہ بڑھا دیا۔
لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سب شعیہ سنی مل کر تالیاں بجا رہے تھے۔

بچپن مین حسن حسین عام بچوں کی طرح پرورش پاتے تھے۔، کبھی کبھی گھر میں فاقہ بھی ہوجاتا تھا۔ لباس بھی وہی جو عام عربوں کا ہوا کرتا تھا۔ علی، رسول کی بیٹی کے شوہر ، کام کرتے تھے تو کھاتے تھے۔ خلفا راشدین کی بھی یہی شان تھی۔ اور صرف یہ رہا ہے سچا اسلامی ہی نہیں بلکہ سچا انسانی دور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں