کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ ِسحر گاہی

(تعلیمی اداروں کی ایک تابندہ روایت سکول اسمبلی سے متعلق چند سطور)
راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com

علامہ اقبال کی نظم ” بچے کی دعا” جب بھی سماعتوں سے ٹکراتی یا نظر کے سامنے سے گزرتی ہے دل ماضی کے سہانے لمحات میں کھو جاتا ہے ۔صبح کا وقت، سکول کا اسمبلی گراؤنڈ ، ایک جانب سجا ہوا سٹیج جس کے عقب میں پرچم لہرا رہے ہوں ، دوسری جانب کھڑی طلبہ کی جماعتیں قطار اندر قطار ، کسی معصوم بچے کی زباں سے بلند ہونے والی تلاوت کی آواز ، مترنم آواز میں پڑھی جا رہی علامہ اقبال کی نظم” بچے کی دعا ” ، قومی ترانے کی اجتماعی آواز ،اور آسان باش و ہوشیار باش کی ہدایات دیتی بارعب آواز ؛سب ماضی کی حسین یادیں ہیں جو سکول کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں ۔ آج بھی کسی اچھے سکول کے قریب سے گزر ہو تو یہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ سکول کے ساتھ اچھے کا سابقہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ نجی سکولوں کی بھرمار نے سکول کا تصور ہی بدل ڈالا ہے۔تنگ و تاریک عمارتوں میں کھلے یہ نجی سکول کھیل کے میدان جیسی سہولت سے محروم ہوتے ہیں اور جگہ کی کمیابی کے باعث طلبہ و طالبات مارننگ اسمبلی کی نعمت سے بھی محروم ہیں ۔یہ اسمبلی کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم و تدریس کا لازمی جزو ہوا کرتی تھی جو اب آہستہ آہستہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مفقود ہوتی جا رہی ہےخصوصاًکرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے جہاں دیگر نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ اثر پڑا ہے وہیں صبح کی اسمبلی بھی متاثر ہوئی ہے ۔جن تعلیمی اداروں میں اسمبلی کی روایت موجود بھی ہے وہ بھی اب رسمی سی رہ گئی ہے ۔ تعلیمی ادارے اور صبح کی اسمبلی کا ایک گہرا رشتہ ہے اور یہ اسمبلی تعلیم و تربیت کا ایک اہم حصہ ہے ۔ برطانیہ میں 1944 کے تعلیمی ایکٹ کے مطابق اسمبلی میں اجتماعی دعا کو اسمبلی کا لازمی جزء قرار دیا گیا ہے ۔اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسمبلی میں دعائیہ کلمات کو لازمی جزء کی حیثیت حاصل ہے ۔ گویا سیکولر دنیا بھی تعلیمی میدان میں دن کا آغاز دعائیہ تقریب سے کرنے کو لازم گردانتی ہے ۔
افراد کا کثیر تعداد میں کسی خاص مقصد کے لیے جمع ہونا اسمبلی کہلاتا ہے ۔اردو میں اس کا ہم معنی بزم ،انجمن ، یا مجلس ہے ۔ انگریزی میں جوڑنے کے عمل اور ترتیب دینے کو بھی اسمبلی کہا جاتا ہے ۔بزم سحر، انجمن سحر یا مجلس سحر کے الفاظ مارننگ اسمبلی کا متبادل ہو سکتے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں اسمبلی میں دعائیہ تقریب ہوتی ہے اور اسکول کے تمام متعلقین اپنی صبح کا آغاز دعا سے کرتے ہیں ۔ اس موقع پر ترانے اور نغمے بھی پڑھے جاتے ہیں اور اخلاقیات پہ مبنی دروس یا تقاریر بھی کی جاتی ہیں ۔ سکول کی اسمبلی میں ہی کوئی اہم اعلان یا خبر بھی پڑھ کر سنائی جاتی ہے اور اس موقع پر اعزازات اور انعامات وغیرہ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ یہی وہ بزم ہے جو سکول کی دن بھر کی سرگرمیوں کو واضح کرتی ہے ، اس میںہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے منصوبوں پر خصوصی طور پر مرکز نگاہ بنایا جاتا ہے ۔طلبہ و طالبات کے علاوہ اساتذہ کرام کی بھرپور شرکت کی وجہ سے یہ دن بھر کی سرگرمیوں کو توانائی فراہم کر دیتی ہے ۔اس لیے یہ بجا طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ سکول کی یہ بزم سکول کی روایات کی امین ہے ۔
مقاصد بزم صبح
سکول کے ساتھ منسلک کوئی بھی سرگرمی بے مقصد نہیں ہوتی ۔بزم سحرسکول کی سرگرمیوں کا لازمی اور اہم جزو ہے لہذا یہ بھی مقصدیت سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ تعلیمی ماہرین کے مطابق اس بزم کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں :
ہر دن کا آغاز دعائیہ کلمات اور اللہ کی عبادت سے کرنے کا اہتمام کرنا اور اس کے ذریعے طلبہ کی اخلاقی و دینی تربیت کرنا ۔
زوزانہ کی اجتماعیت کے ذریعے طلبہ کے اندر ایک اجتماعی سوچ پیدا کرنا، اسے پروان چڑھانا اور اسے بقیہ زندگی تک برقرار رکھنا ۔
طلبہ اور اساتذہ میں اتحاد و یگانگت کے تصور کو اجاگر کرنا ۔ اسکے علاوہ ایک دوسرے کے باہمی تعارف کرانا ۔
طلبہ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں معاشرے میں مختلف حالات کا سامنا کرنے کے قابل بنانا۔
طلبہ کو یومیہ سرگرمیوں کے متعلق مناسب طریقے سے آگاہی فراہم کرنا۔
طلبہ کے اندرادارے کے حوالے سے اپنی شناخت پیدا کرنااور ادارے کی اخلاقی اقدار کو متعارف کرانا ۔۔طلبہ کو احساس دلانا کہ وہ اس اجتماعیت کا ایک حصہ ہیں اور انہوں نے ادارے کی اخلاقی اقدار کا تعارف تمام زندگی کرانا ہے ۔
طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں ،قصوں اور کہانیوں کے ذریعے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنا۔انسانی تجربات (شعور) کو ایک نسل سے دوسری میں منتقل کرنا۔
طلبہ کو ان کی گزشتہ کارکردگی پر حوصلہ افزائی کے ذریعے انہیں مزید بہتر کارکردگی دکھانے پہ مائل کرنا ۔
قومی و دینی تہواروں اور ایام کو اصل روح کے ساتھ منانا ، ان کی اہمیت اجاگر کرنا ۔قومی ابطال (ہیروز) کے لیے مختص ایام منانا اور ان کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کرنا۔
قومی تشخص کو ابھارنا اور ملی یکجہتی پیدا کرنا۔
اگر غور کیا جائے تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اس سارے فلسفے کو تین الفاظ میں سمو دیا ہے اتحاد، ایمان اور تنظیم۔ اور یہی سب کچھ وہ اپاکستانی قوم سے چاہتے تھے ۔ بد قسمتی سے ہم نے ان کے اقوال کو دیواروں اور چوراہوں کی زینت تو بنا دیا مگر اپنی نجی و اجتماعی زندگی میں ان کو نقش نہیں کر پائے ۔
بزم کے مقاصد کے حصول اور ایک مثالی بزم کے لیے ضروری ہے کہ :
سکول میں ایک مرکزی اجتماع گاہ ہواور اس کی ترتیب ایسی ہو جو طلبہ کے اذہان میں اس انجمن کے مقاصد کو واضح کر دے ۔سکول کے قیام کے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کھیل کا میدان اور اجتماع گاہ اس کی عمارت کا لازمی جزء ہوں ۔
ایک ترنم، نغمہ یا ساز جو طلبہ کے سوچ و فکر کے دروازے کو وأ کر دے ۔انسانی طبیعت پر ترنم کے لطیف اثرات ہوتے ہیں لہذا اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ تلاوت قرآن پاک سے روح کو تقویت ملتی ہے اسی طرح دعائیہ کلمات اور قومی ترانے کو ترنم سے ادا کرنے سے ملی و دینی جذبات کو تقویت ملتی ہے ۔
اگر ممکن ہو تو مختلف روشنیوں کا مثبت استعمال ۔اگر تقریب کھلے میدان میں ہو تو یہ ممکن نہیں البتہ آڈیٹوریم یا اسمبلی ہال میں یہ ممکن ہے ۔ روشنی بھی آواز کی طرح انسانی شخصیت پہ اثر انداز ہوتی ہے ۔
اسمبلی کے منتظمین کے اٹھک بیٹھک کا قابل تقلید انداز جو طلبہ کی فکر پر اثر انداز ہو ۔ اساتذہ اور منتظمین کا انداز تخاطب، انداز گفت و شنید اور انداز نشست و برخواست معیاری اور قابل تقلید ہونا چاہیے جو اپنی مقناطیسیت سے طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کرے ۔
اساتذہ کا ایسا طرز عمل جس کی وہ طلبہ سے توقع کرتے ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ طرز عمل الفاظ سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔قول اور فعل میں یگانگت ہونا چاہیے ۔ آپ اپنے طلبہ کو جس روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں خود کو اس روپ میں ان کے سامنے پیش کریں ۔ اگر آپ با ادب طلبہ دیکھنا چاہتے ہیں تو شفیق استاد بن کر دکھائیں ۔
تمام طلبہ کی اسمبلی کی مختلف سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرائی جائے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چند منظور نظر طلبہ کو سرگرمیوں میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔اسی طرح کچھ ہونہار طلبہ کو ہر سرگرمی میں آگے کر دیا جاتا ہے ۔ اس عمل سے بزم کے اصل مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے اور محض چند طلبہ اسمبلی کے ثمرات سے مستفید ہو پاتے ہیں ۔
یومیہ اسمبلی
بزم کو ہفتے کے سات دنوں کی مناسبت سے منعقد کیا جائے ۔ تاکہ ہر دن کی اہمیت کے حساب سے طلبہ کو تیار کیا جائے ۔ جیسے چھٹی اتوار کے دن ہوتی ہے لہذا طلبہ پیر کے دن حاضر ہوں تو ان کو احساس دلایا جائے کہ ایک دن کے توقف کے بعد نئے سرے سے توانائی کے ساتھ نصابی سرگرمیوں میں کیسے حصہ لیا جائے ۔ اسی طرح ہفتے کو دن چونکہ طلبہ نے چھٹی کرنا ہوتی ہے لہذا اس دن انہیں گھر پہ رہ کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور وقت کے درست استعمال اورمعاشرے کے ساتھ تعلق کے متعلق رہنمائی کرنا چاہیے ۔ ہر تعلیمی ادارے کو چاہیے کہ وہ ایام کے حوالے سے منصوبہ بندی کریں اور ہر دن کے لحاظ سے اپنی سرگرمیوں کو ترتیب دیں ۔ وطن عزیز میں 80 اور 90 کی دہائیوں میں چھٹی جمعہ کے دن ہوا کرتی تھی ۔ سب لوگ نماز جمعہ کا اہتمام کرتے تھے اور گھر میں بچے اور بڑے اس کے لیے خصوصی تیاری کرتے تھے ۔ بزرگ گھر سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ ان کے بچے اور پوتے ترتیب سے مسجد کی جانب روانہ ہوتے تھے ۔ اس سرگرمی سے انہیں چلنے پھرنے کے آداب، نماز کے آداب اور دیگر اپنے بڑوں سے سیکھنے کو مل جاتے تھے لیکن اب جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی کر دی گئی ہے تو یہ سرگرمی گھروں سے مفقود ہو گئی ہے ۔ اگر سکول کی انتظامیہ کوشش کرے تو اس کا نعم البدل جمعے کے دن کی اسمبلی میں مہیا کیا جا سکتا ہے ۔طلبہ کو آداب زندگی سکھانے کے لیے بزم ایک نہایت ہی موزوں نشست ہے ۔
خصوصی ایام کے حوالے سے اسمبلی
وطن عزیز میں یہ چلن عام ہو گیا ہے کہ کسی بھی اہم دن کی مناسبت سے چھٹی کر دی جاتی ہے ۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ ان ایام کے حوالے سے خصوصی بزم کا اہتمام کریں ۔ مثلاً 14 اگست کے حوالے سے آزادی کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے سرگرمیاں ترتیب دیں ماضی حال اور مستقبل کا جائزہ لیں اور نئی نسل کو اپنے وطن کا کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے لیے منصوبہ عمل پیش کریں ۔ اسی طرح عید کے موقع پر عید ملن کی سرگرمیاں ترتیب دیں اور عیدین پہ حقیقی خوشی کیسے منائی جائے اس کی تدریب طلبہ سے کروائی جائے غرباء کی دلجوئی اور قربانی کے مقاصد کو باور کرایا جائے ۔ ربیع الاول میں سیرت النبی اور اس کے عملی تقاضوں کی عملی مشقیں کرائی جائیں ۔ رمضان البارک میں قرآن فہمی اور ایثار کا عملی مظاہرہ کرایا جائے ۔علامہ اقبال ، قائد اعظم ، اپنے سائنسدانوں سپاہیوں اور سیاستدانوں کے کارناموں کو نمایاں کرنے کے لیے ان کے یوم پیدائش پہ خصوصی سرگرمیوں کا اہتمام کرکے طلبہ میں قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے ۔یوں ہماری بزم سحر ایک نتیجہ خیز سرگرمی ثابت ہو سکتی ہے ۔
اشتکال یا عمل تصور(Reflection / creative visualization)کی اہمیت
سیکھنے کے عمل کے لیے ایک نہایت ہی اہم زینہ مثبت فکر ہے ۔ بزم کے اغراض و مقاصد کے کو اگر مثبت تخیل کے ذریعے ذہنوں میں نہ اتارا جائے تو یہ محض ایک رسمی کاروائی سے آگے نہیں بڑھ پائے گی ۔ اگر طلبہ کو غور و فکر اور ان کے اذہان کو بزم کی سرگرمیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو تو اس بزم کی سرگرمیوں کے اثرات تادیر طلبہ کی زندگیوں پہ مرتب ہوں گے ۔ اشتکال کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو ذہناً اس کیفیت میں لے جایا جائے جہاں وہ پر سکون انداز میں گردو پیش پر غور و فکر کر سکیں ۔ہمارے اکثر سکولوں میں اسبلی کا جو طریقہ کار رائج ہے وہ فوج کی اسمبلی سے اخذ کیا گیا ہے ۔ فوج میں احکام کی بجا آوری کے لیے ایک مخصوص نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے جو ہدایات اور طریقہ کار متعین ہے اس میں فکر سے زیادہ کر گزرنے کے لیے تیار ی کرائی جاتی ہے ۔ اسمبلی میں جو آسان باش اور ہوشیار باش کی ہدایات موصول ہوتی ہیں اور جو پریڈ کرائی جاتی ہے اس کا بھی بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے ۔سکول کے نظم و ضبط کے لیے اسے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن تدریس کی غرض سے کچھ وقت اشتکال کے لیے بھی مختص کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے الفاظ کا چناؤ اور طریقہ کار تحکمانہ کے بجائے قائدانہ ہونا چاہیے۔اور یہ الفاظ اشتکال کے چار حصوں پہ مشتمل ہونے چاہییں جیسے :
دعوت تخیل :”کچھ دیر کے لیے اپنی توجہ کو ماضی کی طرف مرکوز کیجیے (چشم تصور کے ساتھ محسوس کیجیے کہ آپ نبی ﷺ کے دور میں موجود ہیں وغیرہ)۔” اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے طلبہ خود کو ایک خاص قسم کی روحانی اور جسمانی کیفیت میں لے جائیں گے۔اس کیفیت میں وہ سوچنے سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے اور اس چیز کو بآسانی اپنے اندر منتقل کر لیں گے جو اس وقت آپ کے پردہ ٔ ذہن پہ ہوگا۔
سامع کے ذہن یں تصویر کَشی:”اب اپنے ذہن سے تصور کیجیے کہ جو سیرت کا واقعہ ہم نے سنا آج کی مصروفیات میں اسکی عملی شکل کیا ہو گی۔” اس وقت جو شکل آپ کے ذہن میں بنی ہو گی وہی طلبہ کے ذہن میں منتقل ہوگی ۔ لہذا اس وقت کی مثبت اور تعمیری سوچ آپ کے طلبہ کی تعمیر شخصیت کرے گی۔
دوسروں کی نظر میں اپنا مقام :”اب ذرا سوچئے کہ ہم اپنی زبان اور اپنے عمل کے ذریعے دوسروں کا اعتماد کیسے حاصل کر سکتےہیں ۔اپنی سیرت و کردار سے دوسروں کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں ۔” اس دن یا اس ماہ کے حوالے سے جس اخلاقی قدر کو آپ طلبہ میں منتقل کرنا چاہتے ہیں اس کا بہتریں ادراک اور فہم اسی سوچ اور فکر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے ۔ دوسروں کے دلوں میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے لیے وہ اس تصور کو جو آپ نے پیدا کیا ہے ایک بہترین انداز میں سمجھیں گے ۔
تعمیر شخصیت بذریعہ تزکیہ ٔ نفس :”اب تخیل کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آجائیں ۔ ماضی سے دوبارہ حال میں آجائیں اور فکر کریں کہ ہم نے اپنے آج کو کیسے سنوارنا ہے ۔”یہ الفاظ طلبہ کو تخیل کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لائیں گے اور انہیں یہ سوچنے اور سمجھنے کے لائق بنائیں گے کہ حقیقی دنیا میں اپنے تخیل اور تصور کو کیسے اپنانا ہے ۔
کچھ ممالک میں بدھمت کی عبادت” یوگا “سے متاثر ہو کر مراقبوںکا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اسلامی مملکت میں اسلامی تعلیمات کے ذریعے سے اشتکال کا عمل پورا کیا جا سکتا ہے ۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں ایسی متعدد عبارات ہیں جن میں دعوت فکر دی گئی ہے ۔وہ آیات و احادیث جن میں کسی چیز کے بارے میں تفکیر کا حکم ہے وہ پڑھ کر طلبہ کو اس کے بارے میں فکر کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے ۔جیسے فکر آخرت بیان کرنے کے لیے سورۃ القارعۃ ۔ اللہ تعالی ٰ کی وحدانیت اور اس کی خالقیت کے ثبوت کے لیے اونٹ کے بارے میں کہا گیا کہ ” کیا یہ اونٹ پہ غور نہیں کرتے کہ کیسے پید ا کیا گیا”وغیرہ ۔اسکے علاوہ پہاڑوں ، دریاؤں ، نبات اور حیوانات کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے ان کا ذکر کر کے نباتیات ، حیوانیات ، جغرافیہ اور طبیعات کی روشنی میں ان کی وضاحت کر دی جائے ۔ اسی طرح عبادات اور معاملات سے متعلقہ اوامر و نواہی کے حوالے سے دعوت فکر دی جا سکتی ہے ۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ طلبہ کے اذہان میں آنے والے نکات کو سن کر منتظم اس کا خلاصہ بیان کر دے ۔ اشتکال کے اس عمل کے مندرجہ ذیل ثمرات ہیں:
یہ ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جس میں متفکر طلبہ کو ایصالِ علم میں آسانی ہوتی ہے ۔
طلبہ کو پرسکون ماحول میں بیٹھنے یا کھڑے ہونے پر حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
دل بینا سے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔
بزم کے منتظمین ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں جو سیدھا دل کے دروازے پہ دستک دیتے ہیں ۔
دوران تفکیر طلبہ کو مثبت تخیل اور مثبت سوچ کی مشق ہوتی ہے ۔ مثبت تصورات سے ان کے کردار اور برتاؤ میں اثبات در آتا ہے ۔
اس موقع پر بزم کو چلانے والے اساتذہ پر منحصر ہوگا کہ اس بزم سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کتنی ہے ۔ ایک قابل اور باصلاحیت استاد اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کی تعمیر سیرت کر سکتا ہے اور ایسی کھیپ تیار کر سکتا ہے جو کردار کی دھنی ہو اور مستیٔ کردار سے سرشار ہو۔لہذا اس سرگرمی کے لیے ایسےاساتذہ کا انتخاب کیا جائے جن کی سیرت و کردار پختہ ہو اور وہ تربیت اولاد کے مششاق ہوں ۔
موثر اور کامیاب بزم کا انعقاد

جاری ہے۔۔۔۔۔
باقی کل کی اشاعت میں ملاحظہ کریں

اپنا تبصرہ لکھیں