کوئی اور تھا

کوئی اور تھا

 

کوئی اور تھا

تحریر ضمیر آفاقی
کوئی اور تھا
ہر روز ملے جس سے
اس کی منزل کوئی اور تھا
میں تو راہگزر تھا اسکی
اس کا راستہ کوئی اور تھا
جو میری زندگی کی تلاش تھا
اس کی زندگی کوئی اور تھا
میں جس سے دامن بچاتا رہا
میرے اپنے ہی دل کا روگ تھا
جیسے مر کر بھی نہ پاسکا
اسے مل گیا کوئی اور تھا
وہ میرا رفیق مرا ہمسفر
کبھی تھا تو کوئی اور تھا

اپنا تبصرہ لکھیں