کتنا مغموم تھا، کاش تو دیکھتا

غزل

از ڈاکٹر جاوید جمیل

 

عشق محروم تھا، کاش تو دیکھتا

 کتنا مغموم تھا، کاش تو دیکھتا

 

چشم_نم کا تبسم تری یاد میں

کیسا معصوم تھا کاش تو دیکھتا

 

میرا افسانہء_درد تھا خوب تر

اور منظوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

میرے غم سے فقط تو ہی تھا بے خبر

سب کو معلوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

آنکھوں سے ہونٹوں تک، چہرے سے پیر تک

درد مرقوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

گھر نما قبر میں تیری یادوں تلے

کوئی مرحوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

تو تھا لازم اگر باہمی عشق میں

میں بھی ملزوم تھا کاش تو دیکھتا

 

حاکم _شہر! شامل تھا سازش میں تو

امن معدوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

جو ملا ہائے جاوید ظالم ملا

میں ہی مظلوم تھا، کاش تو دیکھتا

 

 

2 تبصرے ”کتنا مغموم تھا، کاش تو دیکھتا

  1. bht khoob
    گھر نما قبر میں تیری یادوں تلے
    کوئی مرحوم تھا، کاش تو دیکھتا

    تو تھا لازم اگر باہمی عشق میں
    میں بھی ملزوم تھا کاش تو دیکھتا

اپنا تبصرہ لکھیں