کامیاب شادی کا راز:


تحریر ،رومانہ فاروق
رداشت ،توجہ اور حقیقت پسندانہ رویہ
پہلے سال مرد بولتا اور عورت سنتی ہے ‘دوسرے سال عورت بولتی اور مرد سنتا ہے ، تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور ہمسائے سنتے ہیں
قریبی تعلقات کی مضبوطی اور ٹوٹنے کے چند پہلوئوں پر نظر
رومانہ فاروق:
شادی ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل جملہ ہے جس نے زندگی کو الگ الگ بے معنی حصوںمیں بانٹنے کی بجائے فل سٹاپ لگا کر مکمل کر دیا۔اور اسے Relationshipیعنی رشتے ناطے کی مالا میں پرویا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی ایسے ہی بے رنگ، بے وقعت اور بے معنی ہوتی جیسے آڑی ترچھی بے رنگ لکیریں۔ یا پھر ایسے مسافر کی طرح جسکی مسافت منزل کے تعین کے بنا ہی جاری ہے اسلئے تو کہنے والوں نے اسے آب کوثر بھی کہا اور آب حیات بھی لیکن کچھ ایسے بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ شادی محبت ہے اور محبت اندھی ہوتی ہے۔ لہٰذا شادی ایک اندھیر نگری ہے اور اس نگری کے دستور کے مطابق لڑکا اپنی Bacholar کی ڈگری کھوتا ہے جبکہ لڑکی ماسٹر کی اعزازی ڈگری وصول پاتی ہے اور اسی کھونے پانے میںمحاذ جنگ تیار ہوجاتا ہے اور اسے تھری رنگ سرکس بھی کہاجاتا ہے۔شادی شدہ لائف میں ”Suffering”کے لفظ کا بھی اہم کردار ہے جس میں ایک ہیجان سی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ پہلے سال مرد بولتا اور عورت سنتی ہے جبکہ دوسرے سال عورت بولتی اور مرد سنتاہے۔ تیسرے سال دونوں بولتے اور پڑوسی سنتے ہیں۔ بالائے طاق اسکے کہ کس کے کیا خیالات و نظریات ہیںہر ایک وہ جواس تعلق کی کشتی میں سوار ہو چکا ہے اسکی حقیقت اور اہمیت کو سمجھے۔مرد ہو یا عورت دونوں پر یکساں لازم ہے کہ کہ وہ اس Ship کو ہچکولے دینے اور ڈبونے والی تمام لہروں سے محفوظ رکھیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ اس سچائی پر تہہ دل سے سر تسلیم خم کیا جائے کہ شادی ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا باب اوّل شاعری جبکہ باقی ابواب سلیبس ہوتے ہیں۔
ذیل میں کچھ ایسے عناصر کا ذکر ہے جو اس Relationshipکے خاتمے کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں سے پہلے ایسی خواتین نقصان اٹھاتی ہے۔ جن کی طبیعت جلد ہی اکتاہٹ یا بیزاری کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیںکہ شادی کے ابتدائی ایام جب لائف پارٹنر کی طرف سے ہر پہلو میں ولولہ انگیزی کا مظاہرہ ہوتاہے توکچھ عرصہ بعد اس میں تبدیلی برحق ہے۔ لہٰذا وہ اس تبدیلی سے احمقانہ سوچوں کے بھنور میں پھنس جاتی ہیں اور ہر وقت جھنجھلائی اور اکتائی رہتی ہیں۔ اپنے آج اور آنے والے کل کی بہتری کی بجائے کل کو نا بھولا کر نا قابل تلافی نقصان کر جاتی ہیں۔ جبکہ مرد و خواتین کی ایک تعداد ایسی بھی ہے کہ وہ اپنے سکول وکالج کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کو نہیں بھول پاتے بلکہ اپنے ساتھی کے ساتھ تقابلی جائزے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ وہ تو ایسا نہیں تھایا تھی یہ کیوں ایسا ہے۔ ایسے لوگوںکو چاہیے کہ وہ تصوراتی دنیا کی بجائے حقیقی زندگی میں جینے کی عادت ڈالیں اپنے موجودہ لائف پارٹنر کی رفاقت کو خوش قسمتی سمجھیں اور پرانے دوستوںکو ماضی میں دفن کر دیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو کشتیوں میں سوار ہوکر آپ ڈوب ہی نہ جائیں۔ یہاں پر ایسے سسرالیوںکو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو باس بننے کی پوری پوری صداقت رکھتے ہیں۔ حکم عدولی پر سزا وجزا ان کی مرضی پر ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکی کے والدین بیٹی کو بیاہ دینے کے بعد بھی اسکے گھریلو معاملات میں دخل اندازی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جو اس رشتے کی نا پائیداری کا سبب بنتا ہے۔ بد قسمتی سے کئی دفعہ بچے کی موجودگی دراڑکا سبب بن جاتی ہے کیونکہ وقت اور توجہ کی تقسیم کسی ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ مجھے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یا مجھ سے زیادہ اسکی ضروریات کو تر جیح دی جا رہی ہے اور یہی ذہنی دبائو انتشار کا باعث بنتا ہے۔ روپے پیسے کی کمی بھی اس رشتے پر اثر انداز ہوتی ہے، جائز ضروریات کے ساتھ ساتھ غیر ضروری خواہشات کی تکمیل اس ہوس کو بڑھاوا دیتی ہے اگر ایسے میں عورت اپنی سلیقہ شعارسے قابو پا لیتی ہے تو رشتے کی سلامتی ہے وگرنہ بے جا خواہشات کی تکمیل بہت بڑے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مردو عورت دونوںکو یہ بھی چاہیے کہ قبل از منسلک ان کا جو وسیع حلقہ احباب تھا اس میں بھی کمی کر یں کیونکہ اس رشتے میں دوستوںکے مقابلے میں آپ کی توجہ اور سوچ کا حقدار آپ کا ساتھی ہے نہ کے دوست، اسکے علاوہ اپنے گھریلو مسائل دوستوں میں شیئر کر کے بلاوجہ کے مفت مشوروں سے اپنی خوشحال زندگی کو خراب نہ کر یں کیونکہ آپ خود اسکے ذمہ دار ہیں دوسرے نہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتاہے کہ کمیونیکیشن کی کمی بھی اس رشتے کو ختم کرتی ہے کیونکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے بات چیت سب سے زیادہ ضروری ہے جس کیلئے اپنی ذات کے خول سے باہر آنا بہت ضروری ہے۔ اعتماد کی کمی بھی اس رشتے کو پروان نہیں چڑھنے دیتی۔ اس Relation کو محفوظ و مضبوط رکھنے کے لئے ایک دوسرے پر اپنے سے زیادہ اعتماد و یقین شرط ہے۔ جبکہ ایک خاص پہلو جس کی موجودگی خواتین کا خاصہ ہے کہ کسی خاص دن یا موقع پر اگر شریک حیات سے کوئی بھول ہوجائے تو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں نہ کہ انا کا مسئلہ بنائیں ۔کوئی شک نہیں کہ اگر ہم تمام مسائل کا باریک بینی سے مطالعہ و مشائدہ کرنے کے بعد خود اعتمادی ،سمجھداری اور خوش دلی سے سامنا کر یں اورغیر حقیقی سوچوں پر پہرے بٹھا دیں۔ اگر ہم واقعی اس Relationship کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا ۔
t

اپنا تبصرہ لکھیں