کارپوریٹ سیکٹر  میں مسلمانوں کی نمائندگی اور بینکوں کا کردار

عمر فراہی

اکنامکس ٹائمس کے ایک سروے کے مطابق بامبے اسٹاک ایکسچننج (شیئر بازار) میں رجسٹرڈ پانچ سو تجارتی اور صنعتی اداروں میں مسلم ایگزیکیوٹیو اور ڈائریکٹروں کی نمائندگی صرف 2.7 فیصد ہے اور یہ تناسب 1920سے لیکر آج تک کم و بیش وہیں پر اٹکا ہوا ہے- یعنی بامبے اسٹاک ایکسچنج کی پانچ سو کمپنیوں کے 2324 ڈائریکٹروں اور اعلیٰ عہدیداروں میں مسلم عہدیداروں  کی تعداد صرف 62 ہے –
جبکہ ملک میں مسلمانوں کی چودہ فیصد آبادی کو مدنظر رکھتے ہوے یہ بحث بھی سامنے آتی ہے کہ کہیں اس میدان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ تو نہیں کیا جاتا؟ یا پھر مسلمانوں میں صلاحیت کی کمی ہے- مگر ایسا ہوتا تو آذادی سے پہلے کارپوریٹ میں مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد ہونی چاہیے تھی جبکہ اعداد و شمار کے لحاظ سے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں مسلمانوں کی جو تعداد آذادی سے پہلے تھی آذادی کے بعد بھی یہ صورتحال وہیں پر قاںُم ہے- سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ان اعلیٰ عہِدیداروں کی آدھی تعداد مسلمانوں کے مخصوص فرقہ خوجہ ،بوہرہ ،میمن اور گھانچی برادری سے تعلق رکھتی ہے اور مسلمانوں کی یہ چاروں  برادریاں ریاست گجرات سے تعلق رکھتی ہیں – یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آذادی کے بعد ایک ایسا بھی دور آیا جب شیئر بازار کی کمپنیوں کے اسٹاک میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا  اور اسی دور میں بیرونی ممالک کے سرمایہ داروں نے بھی اپنے تجارتی اداروں کو بیچ کر واپسی جانا شروع کر دیا تھا اس کا پورا فاںُدہ ہندو سرمایہ داروں اور بہت سارے کارپوریٹ اداروں کے مالکان اور اداروں نے اٹھایا -اس طرح 1920 میں کارپوریٹ اداروں میں ہندو اعلیٰ عہِدیداروں اور ڈائریکٹروں کی جو تعداد 403 تھی 1940 میں یہ تعداد بڑھ کر 1040 تک پہنچ گئی –
کارپوریٹ میں مسلمانوں کی اس قلیل نمائندگی پر اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے ایسی تجارت میں سرمایہ کاری کرنا زیادہ بہتر سمجھا جو ان کی مذہبی اور اسلامی روایت سے زیادہ ہم آہنگ ہو اور ایک دوسری وجہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور انگریزی سے دوری بھی تھی  جیسا کہ سچر رپورٹ سے بھی ظاہر ہے کہ تعلیم کے معاملے میں مسلمان دلتوں سے بھی بہت پیچھے ہیں ۔ ایک تیسری وجہ مسلمانوں کا ہندوئوں کے مقابلے میں خط غربت سے نیچے آنا بھی ہے-اس طرح کسی بڑی تجارت میں جس  معقول  سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے  مسلمان تاجر وہ مطلوبہ  سرمایہ کاری کرنے سے معزور ہوتا ہے – اخبار لکھتا کہ ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق ملک کی سولہ ریاستوں میں سے سات ریاست جن میں آندھرا پردیش ،گجرات،مدھیہ پردیش، کیرالا، راجستھان اور تمل ناڈو میں مسلمان کچھ بہتری کی طرف راغب ہیں ،جو مسلمانوں  کیلئے حوصلہ مند  ہے کہ اگر وہ کوشش کریں تو ملک کی معیشت میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتے ہیں-
کارپوریٹ میں مسلمانوں کی نماںُندگی پر اکنامکس ٹاںُمس کا اپنا یہ تجزیہ اور تبصرہ اپنے طورپر درست ہو سکتا ہے اور اکثر مسلم ماہرین بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب یہی مانتے ہیں – جہاں تک ہمارا خیال ہے مسلمان تعلیمی پسماندگی کا شکار کبھی نہیں رہا -اگر ایسا ہوتا تو اسلام ایک زمانے تک  پوری دنیا کی تہذیب وتمدن اورثقافت پر غالب نہ رہتااور اگر سیاسی طور پر پسماندہ ہوتا تو عرب سے لیکر ترکی اسپین اور ہندوستان تک مسلمانوں کی حکومت نہ ہوتی جہاں تک معاشی پسماندگی کا سوال ہے  ہندوستان مسلمانوں کے دور میں ہی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا ۔ دراصل مسلمان بیسویں صدی کےبدلتے  ہوےُ حالات کو سمجھ نہیں سکے- ایک ایسے دور میں جبکہ مسلم حکومتیں پوری دنیا میں مغلوب ہو رہی تھیں اور یوروپ غالب ہورہا تھااکثر مسلم علماء نے یہ سمجھا کہ یہ صلیب اور اسلام کا معرکہ ہے-جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یوروپ سے اٹھنے والے اس  مادیت کے طوفان نے دنیا کے تمام خدا بیزار انسانوں کو اپنے  شکنجے میں قید کرنا شروع کر دیا تھا-اور یہ ایک ایسا غیر مذہبی  فتنہ تھا جو بیک وقت کلیسا اور اسلام دونوں پر حملہ آور ہو رہا تھا- اور یوروپ کی تقریباّ اسی فیصد آبادی نے خدا اور چرچ کا انکار کرنا شروع کردیا اور ان میں سے بیشتر جو کسی نئے انقلاب کے خواہشمند تھے کمیونسٹ تحریک کا حصہ بن گئے – انسانی دنیا آج جس سرمایہ دارانہ نظام اور بینکنگ سسٹم کے عذاب میں قید ہے اس کی شروعات اسی خدا بیزار دور میں یہودیوں کے ذریعے شروع کی گںُی یا یوں کہہ لیجئے کہ یوروپ کو مذہب سے بیزار کرنے میں  یہودی تحریکوں کا اہم کردار رہا ہے جنھوں نے اپنی اسی دولت اور سودی نظام کے ذریعے فرانس کا انقلاب برپا کیا اور عیسائیوں میں جہاں پہلے ہی سے مذہب کے خلاف بیزاری پائی جاتی تی اپنی مرضی کے افراد تیار کیئے- انہوں نے یوروپ کے بارسوخ افراد اور فوجی جنرلوں کے سامنے اپنی مرضی کا جمہوری انقلاب لانے کیلئے اسی طرح دولت کے انبار لگا دئے جیسا کہ انہوں جولائ 2012  میں مصر کی مرسی حکومت کو معزول کر کے مصر کے اقتدار کو  اپنی مرضی کے زرخرید فوجی جنرل کو سونپ دیا اور  تحریری شکل میں معاہدہ کر لیا کہ جب وہ اقتدار پر قابض ہوں تو انہیں ان کی حکومت میں آذادانہ تجارت کی آذادی حاصل ہو – یوں تو سودی کاروبار میں یہودی قوم ایک زمانے سے مصروف رہی ہے – اور ضمانت کے طورپر لوگوں کے زیورات کو جمع کر کے پیسے سے پیسہ کمانے کا ان کا یہ کاروبار بہت پرانا رہا ہے مگر کاغذی  کرنسی کے دور میں ان کے اس کاروبار میں جدید بینکوں نے ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر دیا-انہوں نے 1716عیسوی کے قریب امریکہ میں پہلے بینک کی بنیاد رکھی – اس کے بعد 1825 میں  برطانیہ  اور 1860میں  ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پہلے باضابطہ بینک کی بنیاد رکھی گئی اور پھر ان بینکوں نے  ان رقومات کو سرمایہ داروں اور تاجروں کو سود پر دے کر بینکنگ سسٹم کو باقاعدہ تجارت سے جوڑ دیا اور خود بینکنگ سسٹم بھی ایک طرح کےپبلک سیکٹر  کارپوریٹ صنعت میں تبدیل ہو گیا – سچ کہا جائے تو مسلمان اٹھارھویں صدی کے اس نئے فتنے کو سمجھ نہیں سکا-اس دوران علامہ اقبال اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے علماء کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اگر مسلمانوں نے اس مغربی طرز معیشت کے فتنے کی پرزور مخالفت نہیں کی تو یہ لادینی طرز معیشت جو مغرب کی طرف سے یہودی دانشوروں اور سرمایہ داروں  کے ذریعے عمل میں آئی ہے نہ صرف  سیاست سے مذہب  کا خاتمہ کرکے سیاست کو کارپوریٹ اور صنعت میں بدل دے گی بلکہ انسانوں کی طرز معیشت اور معاشرت بھی اسی سانچے میں ڈھلنا شروع ہو جائے گی – آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح نہ صرف سیاست بھی صنعت وتجاتت کا درجہ حاصل کر چکی ہے بلکہ سود اور شراب کے ساتھ  فحاشی کو بھی ایک طرح کی صنعت میں تبدیل کر کے تہزیب و اخلاق کے دائرے میں شمار کر لیا گیا ہے -ایسے میں مسلمان اگر تعلیم کے اعلیٰ مقام پر بھی پہنچ جائے تو کیاوہ اس طرز معیشت اور تجارت کو پورے دل سے  اختیار کر سکتا ہے-کارپوریٹ میں مسلمانوں کی ایک قلیل نمائندگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ دنیا کی جتنی بھی  پبلک سیکٹر کمپنیاں ہیں ان میں تقریبا ساٹھ سے ستر فیصد شیئر بینکوں کا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ بینکوں کی مدد اور شراکت داری کے بغیر کارپوریٹ سیکٹر کمپنیوں کا کاروبار چلانا ناممکن ہے -ایک ایسے دور میں جبکہ انگریز اپنی قائم کردہ تمام کمپنیوں کو فروخت کر کے ہندوستان سے  واپس جانا چاہتے تھے ان کیلئے بھی مشکل تھا کہ وہ کسی ایک شخص کو یک مشت رقم کے عوض پوری کمپنی کو فروخت کر دیتے یا کسی ایک تاجر کیلئے اتنی بڑی رقم کوادا کرنا بھی آسان نہیں تھا بینکوں نے ایسے موقعے پر بہت اہم کردار ادا کیا -ایسے میں وہ غیر مسلم تاجر جس میں گجراتی مارواڑی سندھی اور پارسی خاص طور سے بینکوں کے ساتھ  سودی کاروبار میں شامل تھے انہوں نے اسی طرح  محض دس سے بیس فیصد کی رقم کے عوض پوری کمپنی کو خرید لیا جیسے کہ آج کوئی بھی بینک دس فیصد کی رقم جمع کرواکر کروڑ دو کروڑ کے مکان خریدار کے حوالے کر دیتا ہے اور مکان مالک کو  اس وقت تک مالکانہ حقوق کے پیپر نہیں دیتا  جب تک کہ وہ سود سمیت اپنا پورا سرمایہ واپس نہیں لے لیتا- مکانوں کی خریداری میں تو پھر بھی مکان مالک کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر کہیں اس کی تجارت اور نوکری میں کوئ اتار چڑھائو آیا تو بینک مکان خالی کروا سکتا پے -پبلک سیکٹر کمپنیوں میں ڈائریکٹروں کو یہ جوکھم بھی اس لئے نہیں اٹھانا پڑتا کیونکہ ایک پبلک سیکٹر کمپنی میں  تقریبا  پچاسوں ڈائریکٹر اور ہزاروں شیئر ہولڈروں کا بھی پیسہ لگا ہوتا ہے -اور سب سے زیادہ رسک تو بہرحال بینک کا ہوتا ہے جو کسی بھی صورتحال میں کمپنی کو ڈوبنے نہیں دیتا -اور وہ خود اپنے کاروبار کو بچانے کیلئے  ضرورت کے وقت  مزید سرمایہ کاری بھی کرتا ہے – اس طرح پبلک سیکٹر کمپنیوں میں اگر مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر رہی ہے تو اس کی ایک وجہ تو بینک کا یہ سودی نظام ہے اور دوسری وجہ انگریز تاجروں سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے مسلمان  جدید کارپوریٹ سیکٹر کمپنیوں  کے  مزاج اور  کام کرنے کے طریقہ کو سمجھ نہیں سکا-اب تو صرف کمپنیاں ہی نہیں دنیا کا ہر ملک ورلڈ بینک کا قرضدار ہے اور وہ خود اپنے پیسوں کو وصولنے کیلئے یہ بتاتا ہے کہ انہیں کس طرح کا معاشی نظام تشکیل دینا ہے-

اپنا تبصرہ لکھیں