ڈرناتوضروری ہے 

ممتاز میر 
یو پی کا دنگل ختم ہو گیا اور غیر متوقع طور پر بی جے پی تین چوتھائی اکثریت
 کے ساتھ اتر پردیش کی حکمراں قرار پائی ہے ۔دانشوروں کے تمام ہی اندازے زبردست فلاپ ثابت ہوئے ہیں ۔ہم خود بھی ان میں سے ایک ہیں مگر ہم دانشور نہیں ہمارے نزدیک تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنا اتنا اہم نہیں جتنااہم یوگی آدیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے یہ بڑی معنی خیز تقرری ہے۔اب اردو اخبارات میں جو تجزیے تبصرے شائع ہو رہے ہیں وہ قومی دانشوروں کی کھسیاہٹ کے شاہکار ہیں ۔ہر تبصرے تجزیے کا جو مرکزی خیال ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو خوف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔اس قسم کے حالات امت مسلمہ پر اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں اور وہ ہر بار اس سے بخوبی نبرد آزما ہوئی ہے اور ابھری ہے ۔مگر کتنے عرصے میں ابھری ہے کیسے ابھری اور کہاں ابھری ہے یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں؟تقریباً ہر دانشور صحافی مضمون نگار یہی راگ الاپ رہا ہے کہ قوم کو مایوس ہراساں یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب کوئی بڑا خوفزدہ ہوتا ہے تو وہ یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ خوفزدہ ہو گیا ہے کیونکہ اس کا بڑا پن اس امر میں مانع ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوف کا اظہار کرے مگر catharisis کے لئے خوف کا اظہار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اسلئے اپنے خوف کا اظہار چھوٹوں کا کمزوروں کا نام لے کر کیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ کمزوریہ غریب اس قسم کی باتوں کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ کانگریس ہو یا بی جے پی یا بھارت کی اور کوئی سیاسی پارٹی ،ہر ایک کے ظلم کا نشانہ یہ عام لوگ ہی بنتے ہیں۔ابھی چند دنوں پہلے ایک اخبار میں ایک محترمہ کا مضمون پڑھا ان کی ابتدا ہی اس قسم کے اعلان پر مبنی تھی کہ میں تو بالکل نہیں ڈری۔پھر جو طویل مضمون تھا اس کے بین السطور میں ان کے لاشعور یا تحت الشعور میں بیٹھا خوف جھلک رہا تھا ۔ دوسرے صاحب ایک دوسرے اخبار میں اپنے مضمون میںیو پی کے انتخابی نتائج کا یوں مرثیہ پڑھتے ہیں۔جذباتی تقریریں،سوشل میڈیا پوسٹ ،قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں اور اردو میڈیا کے شور شرابے نے تقطیب معکوسcounter polarisation کا کام کیا اور درمیانی ووٹر بھی پلٹ کر بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے۔ایک تیسرے صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود شمسان و قبرستان اور عید دیوالی کی بات کرکے ترقی کے ایجنڈے کو فرقہ پرستی کا تڑکا لگا دیا۔یہ بڑی سادہ لوحی ہے ۔اب تک وزیر اعظم نے اپنے آفس میں بیٹھ کر فسادی دستوں کی رہنمائی کی تھی ۔کسی نے ان کا کیا بگاڑ لیا ۔ہمیں لگتا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب وہ سنگھ کے فسادی دستوں کی میدان میں نکل کر قیادت کریں گے۔
ایسے ہی اور بھی مضامین مختلف اخبارات میں نظر سے گزرے۔ان مضامین میں مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود بہت سارے مفروضے دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً یہ مفروضہ کہ ۷۰سال پہلے ہمارے آئین کے معماروں نے جس سیکولرزم کی بات کی تھی وہ آج ۷۰ سال بعد بھی ہمارے ملک کی فضا میں کہیں موجود ہے ۔جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں ہمارے ملک کے آئین میں موجود سیکولرز م کو عملاً پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک دن بھی برتا نہ جا سکا ۔خود ملک کے پہلے وزیر اعظم بھارتی سیکولرزم کے چمپیئن پنڈت جواہر لال نہرو نے پہلی آزمائش آتے ہی سیکولرزم کو طاق پر رکھ دیا تھا ورنہ بابری مسجد کا مسئلہ کھڑا نہ ہوتا ۔پھر یہ ایک مفروضہ ہے کہ کانگریس پارٹی سیکولر پارٹی ہے ۔اور ہمارے بھولے بھالے اسلاف کانگریس کو سیکولرزم کاٹھیکہ دے کراپنے فرائض سے آنکھیں موند لی تھیں۔ہمیں نہیں معلوم کانگریس نے اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت کب دیا تھا ۔اگر ہٹلر انتخابات جیت کر جرمنی کا چانسلر بننے کے باوجود ڈکٹیٹر ہو سکتا ہے تو پھر کانگریس میں چند مفاد پرست مسلمانوں کے وجود کے باوجود اسے فرقہ پرست کیوں نہیں سمجھا جا سکتا جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ۹۰ فی صدی مسائل کانگریس ہی کی دین ہیں۔
ایک اور مفروضہ ہے اور یہ مفروضہ بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے یہ ہے کہ وطن عزیز میں امت مسلمہ نامی کوئی شئے پائی جاتی ہے۔جو کچھ بھی ہے وہ ایک منتشر بھیڑ ہے بلکہ مختلف گروہ کی بھیڑ ہے ۔کوئی اپنے آپ کو سنی کہتا ہے کوئی شیعہ۔ کوئی حنفی کہتا ہے کوئی شافعی۔کوئی اپنے آپ کومقلد کہتا ہے اور کوئی غیر مقلد ۔اس طرح ان کے سینکڑوں گروہ اور اور ہر ایک کے اپنے گروہی مفادات ہیں ۔ہمارے نزدیک اس بھیڑ کو سو سال پہلے امت مسلمہ کے منصب سے معزول کیا جا چکا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اب اللہ نے ان کی طرف سے نظریں پھیر لی ہیں۔اب نئی امت مسلمہ کہیں اور تیار ہو رہی ہے ۔جب معتدبہ تعداد ہو جائے گی اور وہ غزوہء بدر سے پہلے کے صحابہ کرام کی تمام آزمائشوں میں پورے اتر جائیں گے تو اللہ ان کی مدد کے لئے ’’گردوں سے فرشتے ‘‘اتارے گا اور وہ اسلام کی نشاۃالثانیہ کا کام کریں گے ۔اب ہم سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ہم اپنی ضلالت میں جتنا آگے بڑھ چکے ہیں اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آزادی سے کچھ پہلے مولانا مودودیؒ نے غالباًاپریل ۱۹۴۷میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں ان لوگوں کو جوتقسیم وطن میں ہندوستان میں رہ جانے کے خواہشمند تھے ،کچھ ہدایات دی تھیں۔ان میں سے ایک ہدایت جو ارکان جماعت کے توسط سے تمام مسلمانوں کے لئے تھی وہ یہ کہ اب ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے آپ کو سیاسی کشمکش سے الگ کرلینا چاہئے اور من حیث القوم دعوت کا کام انجام دینا چاہئے ۔مگر مولانا کی اس بات پر عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے علماو رہنماؤں نے توجہ نہ دی ۔اسلئے کبھی کبھی ہمارے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ علم دین کا ہونا ایک الگ بات ہے اور بصیرت کا ہونا دوسری بات ۔جو بصیرت مولانا مودودیؒ یا علامہ اقبالؒ کو حاصل تھی وہ ہمارے بڑے بڑے علماکرام کے یہاں مفقود تھی۔مولانا مودودیؒ کی مذکورہ بات پر غور و فکر تو کجاالٹا یہ کہہ کر ان کی کھلی اڑا ئی گئی کہ ’’بھارت ‘‘ میں ہمیں دستوری ضمانتیں اور آئینی تحفظات میسر ہونگے ۔اس لالی پاپ پر مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہااگر آپ کی قوم طاقتور ہے تو اسے آئینی تحفظات اور دستوری ضمانتوں کی ضرورت نہیں اور اگر آپ کی قوم کمزور ہے تو اس سے اس کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں۔یہ قدرت کی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج بھی ان علماء کے بے بصیرت چمچے مولانامودودیؒ کو مطعون کرنے سے نہیں چوکتے۔مگر خود ان علماء کرام کی اولاد کبھی کبھی اپنے مضامین میں خطبات میں مولانا مودودی ؒ کی باتوں کی توثیق کرتی ہیں کہ کرنے کا کام یہی تھا۔
ہم نے ۷۰ سال سیاسی کشمکش میں گزار دیئے اور ہر نیا دن ہمیں زوال کی ایک نئی صبح دکھاتا رہا ۔ہمارے دشمنوں نے ہمیں اپنے زوال کی گہرائی دکھانے کے مختلف مواقع پر مختلف کمیشن بٹھائے ،مگر ہمیں نہیں جاگنا تھا نہیں جاگے ۔پھر آخر میں سچر کمیشن بنا کر اس کی رپورٹ کو خوب خوب شہرت دی گئی اسلئے نہیں کہ ہم جاگ جائیں بلکہ اسلئے کہ ماضی کے حکمرانوں کو ذلیل کرنا تھا اور ہم نے ذلالت کی حد کردی۔ بجائے اس کے کہ ہم خود کوئی حکمت عملی بناتے ۔ہمارا خون گرم ہوتا اپنی بے عملی کی بنا پر جھنجلاتے،کڑھتے ۔ہم نے اپنی تمام امیدیں انھیں سے وابستہ رکھیں جنھوں نے ہمیں اس حال کو پہونچایا تھا ۔
دوسری طرف آر ایس ایس کو دیکھئے۔علامہ اقبال نے کہا تھا ۔مسلم آئین ہوا کافر تو ملے حور و قصور۔خود اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم جس چیز کے لئے جد وجہد کروگے وہ تم کو ملے گی۔تم حلال چاہو گے حلال ملے گا حرام چاہوگے حرام ملے گا ۔آر ایس ایس ۱۹۲۵ سے اس بات کے لئے ’’جہاد ‘‘ کر رہی ہے کہ وہ اس ملک پر بلا شرکت غیرے حکمراں ہو جائے ۔نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے تمام غیر ہندوؤں کو غلام بنا کر رکھ دیا جائے اور اس جہاد میں انھوں نے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا اور آج وہ اپنی جدو جہد میں کامیاب ہیں ۔یہ اللہ کی سنت کے مطابق ہے۔اللہ صرف مسلمانوں کا تھوڑی ہے۔وہ تو سب کا خدا ہے ۔ہر شخص کو اس کی جد وجہد کے مطابق پھل عطا کرتا ہے۔مسلمان آیت کریمہ کا ورد کرتے رہتے ہیں ۔ویسا ان کو پھل ملتا ہے ۔آر ایس ایس نے جیسی اور جتنی جدو جہد کی ہے اس کے مطابق پھل مل رہا ہے ۔مسلمان اپنے حالات کے صد فی صد مستحق ہیں ۔اپنی خامیوں کا ،کوتاہیوں کا بدعملیوں کا یہ انجام انھیں ڈرائے گا ہی۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بڑا ڈر بڑے لوگوں کو لگے گا۔وہ لاکھ انکار کریں حقیقت یہی ہے۔
ہمارے نزدیک کرنے کا کام آج بھی وہی ہے جو ۷۰؍۷۲ سال پہلے مولانا مودودی بتا گئے ہیں اس طرح کبھی نہ کبھی ملت منزل مقصود تک پہونچ ہی جائے گی ورنہ بصورت دیگر ممکن ہے کہ اسپین کی طرح یہاں سے بھی ہمارانام و نشان مٹ جائے۔وہ لوگ جنھیں مولانا مودودیؒ کے نام سے چڑ ہے ان کے لئے عرض ہے کہ یہ مولانا مودودیؒ کا خانہ ساز نظریہ نہیں ہے ۔حضور ﷺ نے فرمایا تھا ۔میری امت کی دوبارہ اصلاح میرے طریقے پر چل کر ہی ہو سکے گی ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ فکر خود اس جماعت کے ذہن سے نکل چکی ہے جسے خود مولانا نے قائم فرمایاتھا۔دوسری طرف ہمارے تمام علما کرام یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ ہم مکی زندگی میں جی رہے ہیں۔
آخری بات۔قہر درویش بر جان درویش ۔یہ بات ماننا پڑے گی کہ وطن عزیز میں ۳۰؍۴۰ فی صد ایسے لوگ بھی رہتے ہیں(چاہے ہندو کہہ لیں یا غیر مسلم )جنھیں ترقی کے ایجنڈے سے کوئی سروکار نہیں ۔اچھے دنوں کے جھوٹے وعدوں سے انھیں کچھ لینادینا نہیں۔سب کا ساتھ سب کا وکاس اگر ہوائی باتیں ہیں توان کی بلا سے ۔نوٹ بندی کے ڈرامے میں سو سوا سو لوگ مرگئے تو ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔مالیہ پیسے لے کر بھاگ گیا یا مدھیہ پردیش بی جے پی کی صفوں میں آئی ایس آئی ایجنٹ گھسے ہوئے تھے ،تو یہ سب دیش بھکتی کے کام تھے۔یہ سوچنا بہرحال انڈین تھنک ٹیکس کا کام ہیکہ ایسے لوگ ملک کے لئے اثاثہ یا بوجھ ہیں جو ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں موند کر فرقہ پرستی جیسی باتوں کی بنیاد پر اپنے حکمراں منتخب کرتے ہیں ۔
07697376137 ممتاز میر 
اپنا تبصرہ لکھیں