چار مئی یوم شہادت ٹیپو سلطان

عابدہ رحمانی شکاگو
4 مئی یوم شہادت


ٹیپو سلطان شہید ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریزی افواج کو شکست فاش دی۔ آپ کا قول تھا:
“شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلیے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔
ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کا میاب نہ ہوسکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا غدار ساتھیوں نے دشمن کیلیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو Chitaldrug بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 1799ء میں دوران جنگ سر پر گولی لگنے سےشہید ہو گئے۔
انداز حکمرانی:
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔
علم دوست حکمران:
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی ، فارسی ، اردو ، فرانسیسی ، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور زاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
عظیم سپہ سالار:
ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی ، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔
میسور کی چوتھی جنگ:
میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعم بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدّار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیجھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔
علامہ اقبال کی نظر میں:
شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا:
“ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا”۔

ﺟﻨﻮﺭﯼ 1929 ﻣﯿﮟ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻣﯿﺴﻮﺭ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﭨﯿﭙﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺿﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﻣﺮﺍﻗﺒﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﻨﺒﺪ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﮯ ، ﺷﺪﺕ ﮔﺮﯾﮧ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺳﺮﺥ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺝ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻣﯿﺴﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻗﻮﻣﯽ ﮐﺎﺭﮐﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﺎﺳﯿﭩﮫ ﻧﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺭﻭﺿﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﺮﺍﻗﺒﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻣﻼ۔
ﻋﻼﻣﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ۔ ﻣﺠﻬﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻣﻼ ﮨﮯ ﮐﮧ …
ﺩﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﺘﻮﺍﮞ ﺍﮔﺮ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﺯﯾﺴﺖ ……
ﮨﻢ ﭼﻮ ﻣﺮﺩﺍﮞ ﺟﺎﮞ ﺳﭙﺮﺩﻥ ﺯﻧﺪﮔﯿﺴﺖ …..
ﺗﺮﺟﻤﻌﮧ …
ﺍﮔﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﯿﻨﺎ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮨﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﺩﻭ …
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﭨﯿﭙﻮ ﮨﻨﻮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﻮﯼ ﺳﺎﻣﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺗﻬﺎ ﭨﯿﭙﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﻮﯼ ﺳﺎﻣﺮﺍﺝ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮨﻨﺪ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺟﻨﺮﻝ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﺣﺮﻑ ﺑﮧ ﺣﺮﻑ ﺳﭻ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﭨﯿﭙﻮ ﮐﮯ ﺟﺴﺪ ﺧﺎﮐﯽ ﮐﻮ ﻟﺤﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ …
ﺁﺝ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﺮﺩ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﺑﻬﯽ ﺳﭙﺮﺩ ﺧﺎﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮯ …..
ﺯﻧﮕﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺻﺪﻑ ﻗﻄﺮﮦﺀ ﻧﯿﺴﺎﮞ ﮨﮯ ﺧﻮﺩﯼ …
ﻭﻩ ﺻﺪﻑ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﻮ ﮔﻮﮨﺮ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ …
ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺧﻮﺩ ﻧﮕﺮ ﻭ ﺧﻮﺩ ﮔﺮ ﻭ ﺧﻮﺩﮔﯿﺮ ﺧﻮﺩﯼ …
ﯾﮧ ﺑﻬﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ …
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﻧﺮﮔﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯ ﻧﻮﺭﯼ ﭘﮧ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﮯ …
ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺪﺍ ﻭﺭ ﭘﯿﺪﺍ …
ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ

اپنا تبصرہ لکھیں