پی ٹی آئی بھٹو نہیں عمران خان کا نام ہے

پی ٹی آئی بھٹو نہیں عمران خان کا نام ہے
باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
جب کوئی یہ نعرہ لگاتا ہے کہ عمران خان دوسرا بھٹو ہے تو میرا جی چاہتا ہے اس کا منہ نوچ لوں کہاں ایک نمازی دو قومی نظرئے کا داعی اور کہاں فاشسٹ بھٹو۔بھٹو نہ سوشلسٹ تھا نہ اسلامسٹ وہ کرسی کرسی کا عاشق تھا۔اس کے لئے وہ مولوی کی رضا کے لئے شراب پر پابندی ،جمعے کی چھٹی دیتا رہا ۔تحریک ختم نبوت نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا نہ کہ بھٹو نے۔اس میں اقبال سے پیر طریقت،شاہ احمد نورانی۔سید مودودی،مفتی محمود شورش کاشمیری نوابزادہ نصراللہ سب کی کوششیں شامل تھیں۔
ایک دو روز میں ہم جشن آزادی منا رہے ہیں اس کے تین دن بعد یوم شہدائے بہاولپور ہے۔بعض لوگ اس دن کو منانے کے لئے اپنی برچھیاں تیز کر رہے ہیں۔بھٹو کے چاہنے والے ضیاء کو گالیاں دینے کے نت نئے طریقے تلاش رہے ہیں کوئی ماں کی اور بہن کی گالی بھی دیں گے۔ضیاء کو پورے پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیں گے۔اس قدر طوفان بد تمیزی مچایا جائے گا کہ الحفیظ و الاماں۔اس بار تو مزے کی بات ہے فوج کی دشمنی میں فوج ہی کے ضیاء کو گالیاں دینے میں برطرف وزیر اعظم کا ٹولہ بھی شامل ہو گا۔شومئی قسمت جو رو عمران رو کہہ رہے تھے وہ خود رو رہے ہیں۔مجھے تو ایک فکر لاحق ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں اب ذوالفقار علی بھٹو کو سرٹیفائیڈ لیڈر کا درجہ دیا جا رہا ہے جو میں سمجھتا ہوں ان لوگوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے جو بھٹو کی ستم ظریفیوں کے مارے ہوئے تھے ۔اس رو غلام مصطفی کھر،بابر اعوان اور دیگر ایک اہم اجلاس میں بھٹو بھٹو کر رہے تھے میرا جی چاہتا تھا کہ مائیک مجھے ملے جو خان صاحب نے نہیں دیا میں سمجھتا ہوں بلوچستان گلگت سے آنے والے زیادہ اہم تھے لہذہ میں اسے بلکل محسوس نہیں کر رہا لیکن یہ بات کہے دیتا ہوں کہ ۵ جولائی ۱۹۷۷ کو جتنا جشن منایا گیا وہ جشن آزادی سے بھی زیادہ تھا۔میں باسٹھ سال کا ہوں میں اس تحریک کا حصہ رہا ہوں جس نے بھٹو سے جان چھڑائی تھی۔میں چاہتا ہوں کہ سچ بولا جائے سچ لکھا جائے اور اس قوم کو بتایا جائے کہ بھٹو کون تھا؟
اور میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف کسی بھٹو کی فالوئر نہیں ہے یہ عمران خان کی سوچ پر بنائی گئی پارٹی ہے اور اسے عمران خان ہی لیڈ کریں گے۔اللہ ان کی عمر دراز کرے اور ہمیں وہ موقع دے جب وہ دوتہائی اکثریت سے پاکستان کے وزیر اعظم منتحب ہوں۔جب جناب مصطفی کھر خطاب کر رہے تھے تو مجھے ان کا دور جبر و استبداد یاد آ گیا میں پولی ٹیکنیک لاہور کا طالب علم تھا وہاں کی اسٹوڈنٹس یونین کا نائب صدر اور اسلامی جمیعت طلبہ کا ناظم بھی تھا جو اب گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ہے۔ریلوے روڈ کے اس کالج کی دیواریں میری جد وجہد کی کہانیاں بتا سکتی ہیں اگر وہ بول سکیں اور ہم سن سکیں۔یہ ۱۹۷۴ ہے میرے کالج میں پی ایس ایف کا وہ گروپ جو غلام مصطفی کھر کی آشیر باد پر طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا جس دن میرا الیکشن ہوا اس روز ان کی ٹیم نے بیلٹ بکس اڑا لئے اور شام کو ایک سیکریٹری اور نائب صدر جمعیت کا اناؤنس کروا دیا۔کھر صاحب کو سیکریٹری کو ساتھ لے گئے البتہ میری عدم موجودگی سے ان کی وہ کوشش ناکام ہوئی جو کہنا چاہتے تھے کہ گروپ جیت گیا۔یاد رہے جاوید قریشی نامی ایک شخص جو ان کا سیکریٹری تھا اس نے مجھے یہ باتیں بتائیں۔دوسری بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بھٹو کا دور ظلم جبر کا دور تھا خواجہ سعد رفیق کے والد کو سڑک پر مار دیا گیا جس میں افتخار تاری نامی ایک پیپلئے وزیر کا نام سامنے آیا۔ڈیرہ غازی خان سے لغاریوں کو ہرانے والے ڈاکٹر نذیر کو قتل کرایا گیا۔بلوچستان میں جے ؤ آئی کے مولوی شمس الدین پر ٹرک چڑھایا گیا۔میاں طفیل امیر جماعت کے ساتھ غنڈوں سے زیادتی کرائی گئی۔جاوید ہاشمی کو تھانہ چونہ منڈی میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ڈی پی آر کے تحت ہزروں لوگوں پر مقدمات بنائے گئے۔گجرانوالہ میں عورتوں کے جلوس پر کنجریوں کی ایک فورس جس کا نام نتھ فورس رکھا گیا اس سے حملہ کرایا گیا۔ایف ایس ایف نامی فورس خاص طور پر تیار کی گئی جس کا مقصد فوج اور پولیس کا مقابلہ کرنا تھا اس فورس نے نواب رضا قصوری اور بعد میں ظہور الہی کو قتل کیا۔ڈاکٹر غلام حسین کی بیٹیوں کو تھانوں میں ذلیل کرایا گیا۔شورش کاشمیری کو اس حد تک ٹارچر کیا گیا کہ انہیں کہنا پڑا اللہ بیٹیوں کا باپ نہ بنائے۔یہ وہ شخص تھے جنہوں نے انگریز کا مقابلہ کیا مگر بھٹو نے انہیں بھی مجبور کر دیا۔جے اے رحیم پارٹی کے بانی تھے انہوں نے ایک تقریب میں بھٹو کو دیر سے آنے پر ڈانٹا تو ان کی سر عام پٹائی کرا دی۔اسی طرح گجرانوالہ کے ایک ایم این اے علی محمد دھاریوال کی ڈی سی اور عوام کے سامنے یہ کہہ کر توہین کی کہ تم کیا چیز ہو میری ٹکٹ سے ایم این اے بنے ہو۔وہ غیرت مند شخص گاؤں گئے اور وہیں دل کے دورے کا شکار ہو گئے۔غرض خواجہ خیرالدین جیسے لیڈر کو رسوا کیا۔بھٹو تاریخ کا ایک بڑا مجرم تھا اس نے غریب کو امیر سے لڑایا طالب علم کو استاد سے مزدور کو کارخانے دار اور ہاری کو مالک زمین سے۔طالب علم کو دس پیسے فی ۲۰ میل کا جھانسہ دیا اور بسوں والوں سے لڑائی کرا دی۔تاریخ میں پہلی مرتہبہ طلباء نے پرنسپلوں کے دفتروں پر قبضہ کیا بسیں جلائیں۔وہ سستی شہرت کے لئے بہت کچھ کر گیا لیکن کارخانوں فیکٹریوں ملوں کو قومی تحویل میں لے کر اس نے پاکستانی کی ابھرتی ہوئی معیشت کا بیڑہ غرق کیا۔بھٹو کیا تھا ایک طوفان بد تمیزی تھا جو آیا اور پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گیا۔۵ جولائی کو ضیاء الحق نے جب قبضہ کیا تو قوم نے جشن منایا حلوے کی دیگیں پکائی گئیں اس لئے کہ ایک تقریر یں اس نے کہا میں تھوڑی سی پی لیتا ہوں لیکن یہ مولوی حلوہ کھاتے ہیں۔اسی لئے اس دن میرے والد صاحب نے دیگیں پکوائیں اور پورا ملک حلوے کی دیگیں پکا کر غریبوں میں بانٹنے لگا۔
کیا اس بھٹو کی فلاسفی تحریک انصاف میں لائے جائے گی؟سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جناب عمران خان کی انصاف کی دعوت کا بھٹو کی فسطائیت سے کیا مقابلہ؟یہ لوگ آ تو گئے ہیں لیکن انہیں یہ یاد رکھنا ہو گا پی ٹی آئی عمران خانی سوچ کا نام ہے۔جس دن نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا میں ان دوستوں کے پاس بیٹھا تھا گرمی تھی کھلی ہوا میں نپتھر پر بیٹھ گئے پاس سے علی محمد خان گزرے تو ایک سابق وزیر نے کہا یار یہ شخص جماعتیا لگتا ہے مجھے ہر شو میں درود شریف پڑھتا نظر آتا ہے تو برا لگتا ہے ایسا کام منافق جماعتیے کرتے ہیں۔
یہ ہے ان لوگوں کی سوچیں۔ہم اللہ کے کرم سے پی ٹی آئی میں دو قومی نظرئے اسلام اقبال اور چودھری رحمت علی کی سوچ کے پر چارک ہیں ہم انہیں لگام دیں لیں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔کہ گھس پیٹھئیے اگر عمران خان کی چاپلوسی کر کے پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کامیاب ہو گئے تو کدھر گئے پھر عمران خان کے اکیس سال۔عمران خان صاھب کو میرا مشورہ ہے کسی بھی تقریر میں بھٹو کی تعریف نہ کریں اس کا فائدہ ہوا تو اس کے نواسے کو ہوگا اور ہمارے زخم تازہ ہوں گے ۔ تحریک انصاف کو نہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں