پی آئی اے کے روز ویلٹ اور اسکرائب ہوٹلز چھیننے کی کوشش ناکام

شازیہ عندلیب

قومی ائر لائن کو مقدمہ جیتنے پر تمام پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے مبارکباد
ایک حالیہ خبر کے مطابق دو ہزار انیس میں قومی ائیر لائن کی جانب سے عالمی عدالت میں کیا جانے والا مقدمہ پی آئی اے نے جیت لیا ہے۔ پی آئی نے یہ مقدمہ ینویارک کے ہوٹل روزویلٹ اور پیرس کے اسکرائب ہوٹل کی بازیابی کے لیے بی وی آئی ہائی کورٹ میں دائر کیا تھا۔اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت کے ورجن آئی لینڈ کے ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ائیرلائن پر عائد گذشتہ مقدمات بھی ختم ہو گئے ہیں۔اب پاکستانی ائیر لائن دو سال سے ہوائی کمپنی کا خصارہ پورا کرنے کے لیے عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اس بات کا اعلان گذشتہ روز پچیس مئی کو کیا۔

گو کہ پچھلی کئی دہائیوں سے پی آئی میں سفر کرنے والے پاکستانی مسافروں کو اس ائیرلائن سے کئی شکایات تھیں جن میں پرانے طیارے، خراب سروس عملہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ جیسی شکایات سر فہرست ہیں لیکن ان سب شکایات کے باوجود ایک بری تعداد اس میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی تھی خاص طور سے ادھیڑ عمر اور بزرگ پاکستانیوں کی پہلا انتخاب پی آئی اے ہی ہوتا تھا۔لیکن نئی نسل اس سے کافی متنفر ہو چکی تھی۔ اس کی بڑٰ وجہ قومی ائیرلائن کا ان شکایات پہ کان نہ دھرنا، اور انکا ازالہ نہ کرنا جیسے غیر ذمہ دارانہ روئے شامل تھے جس نے ائیرلائن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کسی بھی بزنس کلچر میں اگر صارفین کی شکایات کا ازخود نوٹس نہ لیا جائے اور انہیں دور نہ کیا جائیبلکہ الٹا اسکی صفائی پیش کی جائے،پھر ایسے ادارے اور کمپنی کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شکایات سیل ہونے کے باوجود شکایات کا ازالہ کیوں نہ کیا جا سکا؟ پھر ایسے پر آشوب اور مشکل وقت میں جبکہ ائیرلائن کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی، ایرلائن خصارے میں جا رہی تھی محب وطن لوگ وارننگ دے رہے تھے کمپنی کا سربراہ کہاں تھا؟ وہ منظر عام پر کیوں نہیں آیا سربراہ نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کا نوٹس لینا قومی سربراہ کا نہیں بلکہ وزیر تعلیم محکمہء تعلیم اور ائیر لائن کے سربراہ کا فرض تھا۔ اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ پی آئی
کا کوئی سربراہ تھا ہی نہیں۔اب بتائیں بھلا کوئی کمپنی بغیر سربراہ کے کیسے چل سکتی ہے۔یعنی اسکا کوئی والی وارث نہ تھا تو پھر اس نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں لٹنا ہی تھا۔
یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی گھر سربراہ کی موجودگی کے بغیر یا پھر کوئی ادارہ یا بحری جہاز بغیر ایڈمنسٹریٹر یا کپتان کے چلرہا ہو۔ایسی صورت میں تو پھر بحری جہاز کا ہر شخص کپتان بنے کی کوشش کرے گا اور ظاہر ہے کہ ایسی ڈولتی کشتیاں کتنی دیر تک سمندر کی سطح پہ تیر سکتی ہیں یہ تو کوئی بھی دانش مند شخص ہی سمجھ سکتا ہے۔
پی آئی اے میں جب پاکستانی ائیر ہوسٹس دیسی استائل میں مسکرا کر میزبانی کرتی ہیں تو کھانے کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔لیکن کچھ لوگ وں کو ان سے بڑی شکائتیں ہوتی تھیں۔وہ ان سے ایسے سلوک کی اور آؤ بھگت کی توقع کرتے جیسے وہ قومی ائیر لائن میں سفر کرنے نہیں بلکہ اپنے سسرال میں خاطر مدارات کروانے آئے ہیں۔یہ لوگ اپنے گھروں میں بھی گھر والیوں سے ناز نخرے اٹھوانے کے عادی ہوتے ہیں اسلیے اگر فضائی میزبان بھی انکی آؤ بھگت نہ کرے تو یہ لوگ شکوے کرنے لگتے ہیں۔ویسے راز کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ہر جہ پہ ہی شکایات ہوتی ہیں انکے ساتھ ہر وقت شکایات کا رجسٹر موجود رہتا ہے۔ورنہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بری بحری یا فضائی کسی بھی سفر کے دوران سفری عملے سے کوئی شکائیت نہیں ہوئی۔ائیر پورٹ پر چیکنگ کے دوران تو اکثر چیکنگ آفیسرز کا رویہ مجھ سے خاصا معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔کچھ تو منہ سے ہی کہ دیتی ہیں کہ معاف کریں چیکنگ کرنا ہماری مجبوری ہے ایسی مؤدبانہ گزارش پہ کون برا منا سکتا ہے بھلا میں تو بس ایک ہمدردانہ مسکراہٹ کے ساتھ انہیں اپنا کام کرنے دیتی ہوں۔یہ ایک الگ کہانی ہے جو پھر کبھی بتاؤں گی فی الحال تو اپنی قومی ائیر لائن کی جیت کی خوشی میں چند سطریں قارئین اور پی آئی اے کی نظر ہیں۔

پی آئی اے ایک ایسی کمپنی ہے جس کے ہوائی جہاز وطن کی سوندھی مٹی دیسی کھانوں اور پر خلوص میزبانی کی خوشبوؤں سے مہک رہے ہوتے ہیں۔پاکستانی جیسے ہی اس کے جہاز میں قدم رکھتے انہیں اپنی بولی اور دیس کی مہک ایک نا معلوم خوشی کا احساس دلانے لگتی تھی۔اس بات کا احساس اس وقت شدت سے ہوا اور پی آئی کی سروس اس کے کھانے اسکا پر خلوص پاکستانی عملہ بہت یاد آیا جب گذشتہ دنوں پاکستان جانے کیلیے عرب امارات کی ائیر لائن میں سفر کرنا پڑا۔پاکستانی ائیر لائن نے مقدمہ تو جیت لیا۔ اب جیت کی خوشی میں اگلا قدم اٹھانا نہ بھولیں۔
بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی ائیر لائن کب دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوتی ہے؟ کب پرانی روش بد لتی ہے؟ اور کب گذشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتی ہے؟ اور کب بیرون ملک بسنے والے پاکستانی مسافروں کو دیس کی مٹی میں گوندھی فضاء والی پروازیں سچ مچ با کمال بن کے پھر سے میّسر ہوتی ہیں؟

اپنا تبصرہ لکھیں