پی آئی اے کا طیارہ310 اے زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا، معمہ حل نہ ہوسکا

پی آئی اے کے طیارے اے 310 کی فروخت کا معاملہ ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے۔ پی آئی اے کے طیارے اے 310 کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ پی آئی اے کو طیارہ ملا اور نہ ہی پیسے۔ کرپشن میں ملوث دو اہم کرداروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ایف آئی اے بے بس ہے۔

روزنامہ دنیا کے مطابق سابق سی ای او جرمنی فرار جبکہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے ڈائریکٹر پروکیورمنٹ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں واپس چلے گئے۔ پی آئی اے نے ایف آئی اے کو مزید تحقیقات کیلئے دستاویزات دینے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کردیا۔ 2016ءمیں ہونے والی اس دلچسپ ڈیل میں پی آئی اے کو ناصرف لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا بلکہ طیارے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ پی آئی اے نے اے 310 طیارے کی نیلامی کے لئے اخبار میں اشتہار دیا اور بولی کی تاریخ 21 دسمبر 2016ءرکھی گئی تاہم بولی سے قبل ہی جرمنی کی کمپنی میلل ڈوشے فلوگفین نے پی آئی اے سے رابطہ کیا کہ انہیں بغیر انجن کے طیارہ دے دیا جائے جس پر پی آئی اے کے ڈائریکٹر پروکیورمنٹ عمران اختر نے سمری سی ای او برنڈ کو بھجوائی اور بولی کے بغیر ہی طیارہ تقریباً55 لاکھ کا فروخت کردیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایسا کنٹریکٹ تھا جس میں پی آئی اے کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا گیا بلکہ معاہدہ میں یہ لکھا گیا کہ اگر کبھی لاہور سے جرمنی کے شہر لائزش سے براستہ نیویارک فلائٹس چلائی جائیں گی تو یہ رقم اس کی پبلسٹی کے لئے استعمال ہوگی۔ اس طرح پی آئی اے کو کوءی رقم وصول نہ ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طیارہ کو جرمنی لیجانے سے پہلے اس کو 12 دن کے لئے مالٹا بھجوایا گیا جہاں پر ایک کمپنی نے 12 دن کے لئے جہاز کرائے پر حاصل کیا اور کرائے کی مد میں پی آئی اے کو تقریباً 2 کروڑ روپے کے قریب کرایہ ادا کیا جبکہ طیارہ صرف 55 لاکھ میں فروخت کیا گیا۔

ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر امان اللہ خان نے جب اس کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا تو پی آئی اے کے سی ای او برنڈ کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تاہم 4 مئی کو وزیراعظم سے آنے والے آرڈر کے بعد انہیں ایک دفعہ 30 دن کے لئے باہر جانے کی اجازت دی گئی اور وہ اب تک واپس نہیں آئے، اس طرح ڈائریکٹر پروکیورمنٹ بھی اپنے محکمہ میں واپس چلے گئے اور اس محکمہ سے ایف آئی اے کو لیٹرلکھا گیا کہ اس ادارے کے خلاف تحقیقات کرنا ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے اور اگر تحقیقات کرنی ہے تو جے آئی ٹی بنائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طیارہ کی فروخت اور بعدازاں سری لنکا سے لیز پر طیارے لینے کے سودے پر مبینہ طور پر پی آئی اے کو 3 ارب کا نقصان پہنچانے والے دونوں افسر محکمہ کو چھوڑ گئے اور ایف آئی اے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔

ایف آئی اے نے متعدد بار پی آئی اے انتظامیہ کو لکھا ہے کہ انہیں سیل آف روٹس، لیزنگ ڈیڈ، ائیرکرافٹ کی تفصیلات فراہم کی جائیں مگر ابھی پی آئی اے انتظامیہ نے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ایف آئی اے انتظامیہ نے ہیڈکوارٹر کو لیٹرلکھا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انہیں بتایا جائے کیس میں ملوث دونوں افراد کے خلاف کس طرح کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں