پیسے کہاں خرچ کیے جائیں؟‎

 دنیا بھر میں متعدد سائیکالوجیکل مطالعات میں اس بات کی کیتصدیق
گئیہےکہ آپ ان پیسوںکا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ خوشی کا تصور 
                      جو ہمیں عام طور پر بتایا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے
                                                                                                                         رپورٹ  وسیم  ساحل

یہ بات حیران کن نہیں کہ جن لوگوں کے پاس بے انتہا پیسے ہوتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تاہم آپ کی خوشی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ان پیسوں کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ خوشی کا تصور جو ہمیں عام طور پر بتایا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے۔

وہ گاڑی یا موبائل جو آپ کو پسند ہے وہ صرف کچھ دیر کے لیے ہی آپ کو خوشی فراہم کرتا ہے لیکن اس کے برعکس اپنے اہلخانہ کے ساتھ وقت بتانا آپ کے لیے زیادہ اور دیرپا خوشی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں متعدد سائیکالوجیکل مطالعات میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔


اصول نمبر 1: سارے پیسے خود پر خرچ نہ کریں


یہ کام صرف امیروں کے لیے نہ چھوڑیں، دوسروں کی مدد کرنے سے بھی آپ کو خوشی ملے گی پھر چاہیں آپ کی آمدنی کم ہے یا آپ ارب پتی ہیں۔ پروفیسر الیبتھ ڈن کی جانب سے کیے جانے والے ایک تجربے میں یہ بات پائی گئی کہ دوسروں کو پیسے دینے سے لوگوں کو دیرپا خوشی ملتی ہے خاص طور پر تب جب لوگوں کو یہ علم تھا کہ جن ضرورت مند افراد کو یہ پیسے دیے جارہے ہیں انہیں اس کی واقعی ضرورت ہے اور اس سے ان کی زندگی پر اثر پڑے گا۔


اصول نمبر 2: چھٹیاں ان شاہانہ پردوں سے زیادہ اہم ہیں


ایسا لگ سکتا ہے کہ وہ نیا صوفہ آپ کی زندگی بہتر بنادے گا لیکن پروفیسر رائن ہاؤل کے مطابق لمبے عرصے تک ساتھ دینے والی اشیاء لوگوں کو حقیقت میں خوش نہیں کرتیں۔ لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت عرصے تک ہمارے ساتھ ہوں گی اس لیے ہمیں خوشی ملے گی لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اس کے برعکس دوستوں یا گھر والوں کے ساتھ بتائی ہوئی چھٹیوں کی یادیں اس وقت سے زیادہ عرصے تک آپ کے ساتھ ہوں گی جب وہ صوفہ پرانا ہوکر کسی دکان پر فروخت کے لیے رکھا ہوگا۔


اصول نمبر 3: اس نئے آئی فون کا سحر بہت جلد ٹوٹ جائے گا


محققین کے مطابق بڑی خریداریاں جیسے کے نیا آئی فون سکس آپ کو مختصر مدت کے لیے خوشی فراہم کرتا ہے تاہم یہ جلد ہی ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ مایوسی لے لیتی ہے کیوں کہ ہمارا دماغ اس طرح کی چیزوں سے بہت زیادہ امیدیں وابسطہ کرلیتا ہے۔ پھر چاہیں یہ خریداری کسی گاڑی کی ہو یا نئے ٹیبلٹ کی، صورت حال کچھ اسی طرح کی ہوتی ہے۔


اصول نمبر 4: وقت کی قیمت پیسے سے زیادہ ہے


جب لوگ اپنے کرئیر کی اونچائیوں پر پہنچنا شروع کرتے ہیں تو وہ بڑا گھر، بہتر گاڑی اور دیگر چیزوں کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک بے وقوفی بھرا آئیڈیا ہے۔ 2004 میں یونیورسٹی آف زیورخ میں ہونے والے ایک مطالعے میں ایسے افراد مجموعی طور پر اپنی زندگی سے دوسروں کے مقابلے میں کم مطمئن دیکھے گئے۔


اصول نمبر 5: اپنے پیسوں کو خود کو وقت دینے کے لیے استعمال کریں


ایسے کام جو آپ کو بور کرتے ہیں اس کو کسی دوسرے فرد سے پیسے دیکر بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ اس سے آپ کو وقت ملے گا اور آپ ان کاموں میں مشغول رہ سکتے ہیں جن میں آپ کو دلچسپی ہے۔ تاہم اسے صرف ٹی وی کے سامنے گزار دینے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اصول نمبر 6: دوسروں کی نقل میں چیزیں خریدنا برا منصوبہ ہے


مادی اشیا کا ہمیں لمبے عرصے تک خوشی نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان سے بہت جلد بے زار آجاتے ہیں۔ خود جیتے گئے میڈلز، ٹرافیاں یا تحفے دوسروں کو دینے سے جب آپ انہیں دوبارہ واپس حاصل کریں گے تو انہیں دوبارہ جیتنے جیسے احساس ہوگا۔ا


اصول نمبر 7: خود جیتے گئے تحفے دوسروں سے شیئر کریں


کسی بھی پروموشن کے بعد آپ چاہیں گے کے میں فوراً وہ گاڑی خریدلوں لیکن یہ صرف وقتی خوشی ہی دے سکے گی۔ پروفیسر تھامس گیلووچ کے مطابق دوسروں کی دیکھا دیکھی چیزیں خریدنے پر یہ صورت حال بدترین ہوتی ہے کیوں کہ آپ کو بعد میں یہ احساس ہوگا کہ شاید اس چیز کی مجھے ضرورت سرے سے تھی ہی نہیں جس سے آپ مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں