پیر آف بھرچونڈی سے ملاقات

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہم لوگ نائن الیون سے پہلے مسلمان ہو گئے۔ورنہ ہم بھی کسی ایف آئی آر کا حصہ ہوتے۔ کٹہروں میں کھڑا کر کے پوچھا جاتاکہ تو مسلمان جبری طور پر تو نہیں ہوا۔
سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ صرف ہندو لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہوتی ہیں؟لڑکے کیوں نہیں۔درگاہ بھر چونڈی پر ہی کیوں ان کو لایا جاتا ہے؟یہ سوال میرے لئے بھی بڑا سوال تھا مجھے تجسس بھری زندگی اچھی لگتی ہے میں سوال کرتا ہوں اس کے پیچھے جاتا ہوں ڈاکٹر ربنواز کلوڑ عبدالغفار کلوڑ سندھ سے پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر آئے مجھے پتہ چلا سکھر سے ہیں۔ زیریں سندھ کے علاقے بڑے زر خیز ہیں معدی دولت بھی ہے اور زرعی طور پر تگڑے علاقے ہیں
دوسرے روز وہیں دفتر میں پتہ چلا پیر آف بھرچونڈی میاں نور جو پیر عابد کے بیٹے اور میاں مٹھو کے پوتے ہیں وہ تشریف لائے ہیں میں انہیں نشاتے پے گھر آنے کی دعوت دے آیا میں نے سوال داغا کہ ان دو لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے کی کہانی کیا ہے؟میرا سوال بھی یہی تھا کہ کہ صرف لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہوتی ہیں لڑکے اور دیگر مرد کیوں نہیں مسلمان ہوتے۔میں نے بہت سی سنی سنائی باتوں کا پہاڑ بھی تھوپ دیا نوجوان منحنی جسم کے پیر بھرچونڈی نے جو جواب دیا میں آپ کی نذر کئے دیتا ہوں ۔ان چیزوں میں دل چسپی صرف اس لئے نہیں تھی کہ دو لڑکیاں مسلمان ہو گئیں۔دل چسپی یہ تھی کہ پوری دنیا میں دھما چوکڑی مچی ہے کہ جبرا مسلمان کر دی گئی ہیں۔پیر نور کا کہنا تھا افسوس تو اس بات کا ہے کہ بھرچونڈی درگاہ پر گزشتہ تین سو سالوں سے اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور تو اور ایک سکھ جو بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی کے نام سے مشہور ہوئے وہ بھی درگاہ بھرچونڈی میں مسلمان ہوئے۔اور بے انتہا لڑکے اور لڑکیا مسلمان ہوئیں۔رہی بات کہ لڑکیا ں ہی کیوں ان کا کہنا تھا مسلمان ہونے پر این جی اوز اور دیگر مذہب بے زار لوگ ایک شور مچا کر دیہاڑی لگاتے ہیں پیر صاحب کا کہنا تھا کے مسلمان لڑکے جب تعلقات اس حد تک بڑھا لیتے ہیں تو انہیں جب شادی کرنا ہوتی ہے تو وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔یہاں اس سوال کے جواب کا مجھے علم ہے کہ وہ بھرچونڈی شریف ہی کیوں تو اس کا واضح جواب ہے کہ پیر آف بھرچونڈی شریف کے گدی نشین مضبوط لوگ ہیں میاں مٹھو ان کے بیٹے میاں جاوید تگڑے لوگ ہیں انہیں جہاں دعوت تبلیغ کی قوت بھی ملی ہوئی ہے وہاں یہ لوگ دلیر اور علاقے بھر میں ایک مقام رکھتے ہیں دہشت اور خوف کی علامت بھی ہیں۔انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ زیریں سندھ کے اس علاقے میں دعوت تبلیغ کا مرکز بنائے بیٹے ہیں جہاں را نے پنجے گاڑ رکھے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ہندو اسلام قبول کرتا ہے تو اس طوفان کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔میاں مٹھو نے تحریک انصاف میں شمولیت کی انہیں شنید ہے ٹکٹ بھی ملا لیکن وہ واپس لے لیا گیا انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے نوے ہزار ووٹ لئے۔
میں نے زندگی میں بہت سی نالائقیاں کی ہوں گی لیکن اس دن میاں مٹھو میاں جاوید اور ان کے ساتھی میرے کہنے پر اسلام آباد کے دور دراز علاقے سے پارٹی سیکرٹیر یٹ آئے لیکن بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے یہ عظیم لوگ اٹھ کر چلے گئے اس میں میری غلطی تھی سیکرٹری جنرل ارشد داد کو جب اس بات کا پتہ چلا تو ناراض ہوئے کہ میں نے انہیں کیوں نہیں ملوایا میں وقت دیکھتے رہ گیا اور وہ لوگ چلے گئے۔مجھے دلی دکھ ہے لیکن میں میاں جاوید سے پوچھا کہ سائیں ماجرا کیا ہے کہنے لگے ہم اس ملک کی سپریم کورٹ میں بلوائے گئے ہیں کہ بتائیں لڑکیاں جبرا مسلامن کیوں کی گئیں۔کہنے لگے پہلے شور تھا کہ لڑکیاں نابالغ ہیں بعد میں جب ڈی این اے سے ثابت ہوا کہ وہ بالغ ہیں تو پھر یہ الزام لگایا گیا کہ دونوں بہنیں جبری طور پر مسلمان کی گئی ہیں۔ان کی باتوں سے نتیجہ اخذ کیا کہ دین کی تبلیغ کی وجہ سے زیادہ ان بچیوں کو جن حالات میں رکھا گیا وہاں سے وہ نکل کے مسلمان لڑکوں کے ساتھ نکاح کرنے اس لئے آئیں کہ وہ ہندوؤں کی نچلی ذات سے تعلق رکھتی تھیں ایسی ذات جو کسی برہمن کو چھو لے تو اس ے شائد مار دیا جائے۔برصغیر میں اسلام اور مسیحیت پھیلنے کی یہی ایک وجہ تھی ذات پات کی تقسیم سے تنگ آئے ہوئے لوگ اسلام قبول کر لیتے تھے۔ہندوؤں میں برہمن کبھی دلت کے ہاتھ کا نہیں کھائے گا لیکن وہی دلت جب مسلمان ہو گا تو سید کے ساتھ بیٹھ کے کھا سکتا ہے۔
میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے جب میاں جاوید نے بتایا کہ والد صاحب قبلہ میاں مٹھو نے کہا جاوید چھوڑو ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں نہ ہمیں کسی سیاسی پنڈت کے ہاتھ کی ضرورت ہے ہم عدلیہ کے سامنے جائیں گے حقائق سامنے رکھیں گے۔
قارئین یہ دلیر لوگ اس معاشرے کی ان این جی اوز کا اکیلا مقابلہ کر رہے ہیں جنہیں صرف اس بات کے پیسے ملتے ہیں کہ پاکستان کے ماحول کو خراب کرو۔آپ نے دیکھا ہو گا چند اوباش خواتین نے اسلام آباد کی سڑکوں پر آ کر دنیا میں ہل چل مچا دی۔میں حیران ہوں یہ دیسی لبرل چاہتے کیا ہیں۔پھر ایک عورت کے سر کے بال مونڈھے گئے تو اس کو بھی دنیا میں اچھالا گیا۔حالنکہ دوسرے دن جب حجاب پہن کر عدالت آئی تو پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
پیر آف بھرچونڈی شریف کے خانوادے کے لوگ اسلام آباد میں تھے وہ اس اسلامی ملک کے بڑے شہر کی عدالت کے سامنے پیش ہونے آئے تھے ان کا قصور یہ تھا کہ ہندو سماج کی بندشوں سے چھٹکارہ پانے والی دو لڑکیوں کو پناہ دے کر اسلام کے دائرے میں لایا گیا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم کس دور میں زندہ ہیں۔آج وائس آف امریکہ پر تھا وہاں کے ذمہ داران نے مجھے فون پر لیا مسئلہ کیا تھا کہ عمران خان پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں سے کیسے نپٹیں گے۔میرے میں سوال ٹھونسے جا رہے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ڈٹ کر جواب دیا کہ مجھے یہ بتا دیں کہ کرائسٹ چرچ کا سفید فام دہشت گرد کیا جامعہ حقانیہ کا پڑھا ہوا تھا؟
قارئین بتدریج اسلام کے حق میں اٹھائی جانے والی آوازیں بند کی جا رہی ہیں۔میں سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر کہتا ہوں کی جن ملکوں کی معیشت خراب ہوتی ہے ان کے مو ء قف بھی جرا ت مندانہ نہیں رہتے ۔ترکی کے طیب اردگان کی آواز کی گھن گرج کسی خاص وجہ سے نہیں اس کی بڑی وجہ یہ کہ ترکی ایک امیر اور طاقت ور ملک ہے۔ہمیں ایف اے ٹی ایف سے ڈرایا جا رہا ہے۔ہمیں ڈو مور کا کہا جا رہا ہے۔قارئین ہم جب اس معاشی آکاش بیل کے چنگل سے نکل گئے تو دیکھ لینا ہم اس دنیا پے اگر راج کرنے کے قابل نہ ہوئے تو کم از کم ہم پر کوئی سواری نہیں کرے گا۔میں یہاں کھل کھلا کے لکھ رہا ہوں کے اسلام دوست اور پاکستان دوست لوگ بھرچونڈی والوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ان پر عرصہ ء حیات تنگ کرنے کی جو مذموم کوشش ہو رہی ہے اسے ناکامی ہو کر رہے گی۔
اس قوم کے اندھے لوگوں کو کب احساس ہو گا کہ سانحہ ء ڈھاکہ کے پیچھے اسلام دشمن ہندو اساتذہ کا بڑا ہاتھ تھا۔مجیب کے پیچھے بھی ایک ہندو برہمن نہرو کا ہاتھ تھا اور یہ ہاتھ اگر جاننا ہے تو ضیاء شاہد کو پڑھئے دن تاریخ سب کچھ میرے دوست نواز شریف نامی کتاب میں درج ہے۔
پروفیسر عنائت علی خان کو سنئے
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
کیا ایک بار سندھ کے اس زیریں علاقے میں جہاں ہندو اکثریت مسلمانوں کے معاشی گلے کو دبائے بیٹھی ہے وہاں کسی اور سانحے کے انتظار میں ہے۔ہم ان ہندوؤں کی بات نہیں کر رہے جو پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن کیا سارے کے سارے مسلمان محب وطن ہیں مسیحی محب وطن ہیں یا ہندو وطن سے پیار کرتے ہیں ۔نہیں جناب میر جعفر اور میر صادق ہر قوم ہر قبیلے میں موجود ہیں۔یہاں جب اس حساس موضوع پر لکھتا ہوں تو اس خوف سے لکھنا بند نہیں کر سکتا کہ کوئی ناراض ہو گا۔
میری بات میرا کلام میرا پیغام واضح ہے زیریں سندھ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اگر ہم نے اسلام دوست اور پاکستان دوست قوتوں کو اسلام آباد لا کر کٹہرے میں کھڑا کیا تو یہ نہ ہو جو اہل دل ہیں وہ بھی دکھی ہو کر کہیں کہ جائے بھاڑ میں ہمیں اس سے کیا غرض کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ان کے دلوں کو مسمار نہ کریں۔کتنے نادان ہیں ہم اپنوں کو سینے سے دور اور دور لوگوں کے لئے سینہ وا کئے ہوئے ہیں۔ہم ان پھول پیش کریں ان کے گلاب سنگھ واپس کریں ابھی نندن کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بھیجیں اور وہ لاشیں۔ٹھیک ہے بہت کچھ ہو گیا ماہی گیر بھی گئے ابھی نندن بھی گیا لیکن یاد رکھئے یہ خیر سگالی کے جذبات یک طرفہ نہ ہوں ۔اب جو کچھ ہو گا وہ اینٹ کا جواب پتھر سے ہو گا۔بھارت ازلی دشمن ہے دشمن رہے گا۔آپ سانپوں کے بچوں کو چلیوں دودھ پلائیں ڈسنا ان کی فطرت ہے
ہاں جی بھرچونڈی کے میاں صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسمبلی میں کوئی بل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ہو سکتا ہے کسی کا مسلمان ہونا ہی نا ممکن بنا دیا جائے تو میری ان کو تسلی تھی اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والے زندہ ہیں یہ اس کا دین ہے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
اور مکان نمبر پانچ سو دو کے لان میں بیٹھ کر میں نے کہہ دیا تھا کہ رب ذوالجلال اللہ کے گھر اور دین کے دشمنوں کو کعصف ماکول بنانے کی نشانیاں دکھا چکا ہے۔کوئی اس دین کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھے تو سہی۔ویسے ان دیسی لبرلز سے میرا سوال ہے کہ یہاں تو یہ پیر مسلمان بنا رہے ہیں مجھے ذرا یہ تو بتائیں کہ یورپ میں جس تیزی سے دین پھیل رہا ہے وہاں کون سا بھرچونڈی شریف کا پیر گیا ہے اور کون سا ذاکر نائیک مسلمان کر رہا ہے؟
میں اس ناراض پیر کے پاؤں چھو کر منا لوں گا اس لئے کہ وہ میرے نبیﷺ کی دعوت کا مجاہد ہے۔
دوستو! کیا ہم ماڑے جنے کی رن بن کر زندگی گزار دیں گے۔جو جنے کی بھابی ہوتی ہے؟کیا کامونکی کے حافظ نعیم کی طرح ہمیں اب اسلام کے نام پر بنے ملک میں جلایا جائے گا؟اگر یہی مطلوب و مقصود ہے تو پھر اس کا بھی فیصلہ کر لیا جائیگا اگر شب بھر میں مسجد بنا لی تھی تو اپنے دین کے لئے بھی لوگ مٹنے مرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ہندو اقلیت یا دوسری اقلیتیں مزے سے رہیں۔آپ کوئی تبلیغ کرنا چاہتے ہو تو کرو تم اپنے دین میں آزاد ہو۔ہندو ہو سکھ قادیانی یا کوئی اور ہم نے کب آپ پر پابندیاں لگائی ہیں۔
مجھے نوے کی دہائی میں احمد دیدات نے کہا کہ شاہ فیصل نے اسلام کا قلعہ پاکستان کو ٹھہرایا لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں سیالکوٹ گجرانوالہ کے ارد گرد اس قلعے میں شگاف ڈالے جا رہے ہیں۔کہا اللہ ہے ناں جو اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ہے۔
میاں نور جی میاں جاوید جی اور میاں مٹھو جی اس بائیس کروڑ کے ملک
کے مسلمان آپ کے ساتھ ہیں جبر کسی پے کرنا ناں جبر آپ پر نہیں ہونے دیں گے۔اسلام میں اقلیتوں کے حقوق ہیں ان کی پاسداری کیجئے۔(اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہندو لڑکیوں کے کیس میں حق پر فیصلہ دے دیا ۔مبارک پیر بھرچونڈی)

اپنا تبصرہ لکھیں