پڑھنے کو تجربات کی زندہ کتاب رکھ

(شعبہ ٔ تعلیم میں گزرے ماہ و سال کا ماحاصل)
راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات
قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com

زمانہ طالب علمی میں بندہ ہزار قسم کے خواب دیکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید ان خوابوں کی تعبیر بھی اتنی ہی آسان ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ زندگی نہ تو پھولوں کی سیج ہے، نہ ہی آگ کا دریا بلکہ یہ تو ایک امتحان ہے۔ ہر شخص کو اس امتحان سے گزرنا ہے اور پھر ایک اور زندگی کی طرف جانا ہے جس کا دارومدار اس امتحان کے نتائج پر ہے۔ وقت کی قید میں گرفتار انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھتا چلا جاتا ہے۔ یہی انسانی شعور یا تجربہ کہلاتا ہے۔
راقم بھی زمانہ طالب علمی میں بڑے خواب سجا کر بیٹھا تھا کہ عملی زندگی میں یہ کرنا ہے اور وہ کرنا ہے، لیکن جوں ہی تعلیمی میدان سے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
حصولِ روزگار خود ایک بڑی آزمائش اور امتحان ہے اور پھر من پسند روزگار تو شاید چند لوگ ہی حاصل کر پاتے ہیں، البتہ حصولِ روزگار کے سلسلے میں ہونے والی آبلہ پائی نے ایک سبق یہ ضرور سکھایا کہ ہمیں اپنی اگلی نسل کی توجہ نوکری کے بجائے کاروبار کی جانب مبذول کرنا ہے۔ انھیں دست نگر رہنے کے بجائے خود انحصاری کا درس دینا ہے، کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ نوکری پیشہ شخص اپنا یا اپنے خاندان کا کفیل ہوتا ہے، جب کہ ایک کاروبار سے کئی خاندانوں کے چولہے جلتے ہیں۔
جب میں HOPE فاؤنڈیشن اسلام آباد میں کوآرڈی نیٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا تو اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تحصیل باغ کی سطح پر خواتین کے لیے سات وکیشنل ٹیچنگ سنٹرز قائم کیے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ خواتین اپنے علاقہ میں رہ کر تربیت حاصل کریں گی اور گھر میں سلائی، کڑھائی اور بنائی کے ذریعے نہ صرف خود کفیل ہوں گی، بلکہ ان کی بنی ہوئی مقامی اشیا قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت ہوکر علاقے کی مثبت شناخت کا باعث بھی بنیں گی۔
دوران تعلیم میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ درس و تدریس سے وابستہ ہو کر نونہالان وطن کی رہنمائی کروں گا، لیکن مجھے اس مقدس شعبے کی خدمت کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہمیشہ انتظامی و ابلاغی ذمہ داریاں ہی مجھے سونپی گئیں۔ شعبہ تدریس میں قدم نہ رکھ سکنے کی وجہ کسی صورت بھی قابلیت کی کمی نہیں تھی لیکن حوادث زمانہ نے اس شعبے میں قدم نہ رکھنے دیا۔ اس کا ذکر کہیں اور سہی لیکن بار بار کی ناکامی نے یہ سبق ضرور سکھایا کہ بعض اوقات ہم اپنے تئیں کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں جب کہ ہمارے رب نے ہمارے لیے ایک اور فیصلہ کر رکھا ہوتا ہے اور منصوبہ تو اُسی کا کارآمد ہوتا ہے۔ آپ کا رب آپ سے جو کام لینا چاہتا ہے، وہ شاید زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لہذا آپ کو جو بھی کام سونپا جائے آپ اسے بہترین اسلوب پر انجام دے کر اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کرکے ادارےیا تنظیم کو بہتر بنانے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
میں گذشتہ سات برس سے تعلیم کو عام کرنے والی ایک جامعہ (قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پشاور) میں بطور اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات وابستہ ہوں۔ بار بار امتحانات میں حاضر ہونے کے بعد رب کی ذات نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں ہم دوسروں کا امتحان لیتے ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد شعبہ تعلیم کے متعدد راز مجھ پر افشا ہوئے۔ شاہراہ تعلیم کے قارئین اور اساتذہ ان سے مستفید ہو پائیں گے:
۱۔ امتحانات کا مقصد طالب علم کو تین جہتوں سے جانچنے کا نام ہے، وہ یہ ہیں کہ:
(الف)معلومات (Knowledge/ Information): اس کامطلب یہ ہے کہ طالب علم کو متعلقہ موضوع کے حوالے سے معلومات ہیں یا نہیں۔ مثلاً دو جمع دو چار۔ اگر طالب علم زبانی یا لکھ کر بتا دیتا ہے کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ اسے اس بارے میں معلوم ہے۔
(ب) فہم (Learning):اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طالب علم کو معلوم ہے، اس کے بارے میں جانتا بھی ہے یا محض رٹا لگا کر یاد کر لیا ہے، جیسے دو جمع دو چار تو وہ بتا رہا ہے لیکن کیا اسے یہ معلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔
(ج) انطباق (Application) : اس کا مطلب ہے کہ آیا طالب علم اس قابل ہے کہ اپنی معلومات اور اپنے فہم کو کسی اور جگہ اسی طرح استعمال کر سکے۔ مثلاً، اسے دو دو روپے کے سکے دیے جائیں تو کیا وہ بتا سکے گا کہ یہ چار ہیں۔ اسی طرح کسی چیز کے دو جوڑے اس کے سامنے رکھ کر اس سے عدد پوچھے جائیں تو وہ بتا پائے گا یا نہیں۔
راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ہم نے محض معلومات کو ہدف بنایا ہے اور اسی پر ہمارا تمام تر نظام تعلیم مرکوز و منحصر ہے۔ فہم اور انطباق کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں۔
۲۔ معلومات تک محدود ہونے کی وجہ سے ہمارا تمام تعلیمی نظام ایک چھاپہ خانہ بن کر رہ گیاہے۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کتابیں چھاپتا ہے۔ اُستاد کتاب سے تختہ سیاہ پہ نقل کرتا ہے۔ طالب علم تختہ سیاہ سے کاپی پہ منتقل کرتا ہے اور امتحان میں اسے یاد کرکے دوبارہ کاغذ پر منتقل کر دیتا ہے جس کے بعد اسے سند دے دی جاتی ہے۔ جب یہ طلبہ و طالبات عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں یا تحقیق کی دنیا میں آتے ہیں تو محض نسخ در نسخ ہی کا کلیہ اپناتے ہیں، ذہن کا استعمال مفقود ہو گیا ہے اور بھیڑ چال اور اندھی تقلید کا چلن ہے۔
۳۔ جب نکتہ نگاہ محض معلومات کی جانچ ہی ہو تو پھر نقل اور سرقہ ادبی جیسے مہلک امراض آن دھمکتے ہیں ہمارا تمام تعلیمی نظام اس بیماری سے لتھڑا پڑا ہے۔
۴۔ فہم اور انطباق کے فقدان کی وجہ سے ایک بے عمل معاشرہ تشکیل پا رہا ہے۔ ہم اپنی اعلیٰ اقدار کو نئی نسل میں منتقل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ سچائی، دیانت داری، فرض شناسی، محنت، اخلاق حسنہ، یہ سب کچھ کتب کی زینت تو ضرور ہے اور طلبہ و طالبات اسی پر بہت اچھا مضمون بھی تحریر کر لیتے ہیں، لیکن ان کی زندگیوں میں یہ اعلیٰ اقدار مفقود ہیں۔ وہ استاد کو راست باز، حق گو، وقت کا پابند اور فرض شناس نہیں پاتے اور اپنے بزرگوں کو اس کے برخلاف دیکھتے ہیں، تو خود کیسے ان اوصاف حمیدہ سے متصف ہو سکتے ہیں۔
۵۔ جہاں اوصاف حمیدہ عنقا ہوں، وہاں سلبی جذبات و رویے نشوونما پاتے ہیں۔ خدمت خلق کا جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے خود غرضی پروان چڑھ رہی ہے۔ عجزوانکسار کی جگہ خود نمائی لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ خود کو قابل ثابت کرنے کے لیے طلبہ و طالبات کو مشکل میں ڈالتے ہیں اور حیرت اس امر پر ہے کہ یہ نظام تعلیم ایسے اساتذہ کو دادتحسین دیتا ہے، جو طلبہ کو گھما کر رکھ دے۔ یہی سوچ امتحانات سے لے کر عملی زندگی کے میدانوں تک طلبہ میں منتقل ہو جاتی ہے، ہم کسی بھی شعبے میں للہیت اور خدمت خلق سے سرشاد افراد مہیا نہیں کر پا رہے۔
۶۔ خود غرضی کے جذبے کی وجہ سے حرص عام ہے اور مقصد زندگی محض پیٹ پوجا کو بنا دیا گیا ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے تعلیم بھی بکنے لگی ہے، قلم و کتاب نیلام ہونے لگی ہے۔ تعلیم ایک فرض سے نکل کر ایک تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے سرمایہ دار اور امراء کے لیے تعلیم کے دروازے کھلے ہیں، لیکن ایک غریب فرد کے لیے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔
زندگی کے تلخ و شیریں تجربات نے یہ بات تو واضح کر دی ہے کہ مہلت عمل بہت قلیل ہے اور فرائض کی فہرست طویل ہے۔ اس مختصر زندگی میں انسان کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ اللہ او ر اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی اور بندگان خدا کی تعمیرسیرت کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اگر ہماری زندگی اسی اُصول کے مطابق بسر ہو تو یقینا ہم اس دنیا میں کامیاب ٹھہریں گے اور دار البقاء میں اپنے رب کے مقرب بندوں میں شامل ہوں گے اور سدا اس کی رحمت کے سائے میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک لوگوں میں شمار کرے۔ آمین
پناہ کے لیے خوابوں کی گود ڈھونڈتی ہے
حیات سہہ نہ سکی اپنے تجربات کا کرب

اپنا تبصرہ لکھیں