پِلّو، تکیہ

پِلّو، بالشت،تالینا، بالیش،ٹوٹو، موخذہ یعنی146146Dr. ABid ALiتکیہ

ڈاکٹر عابد علی

مدینہ منورہ

+966507811074

تکیہ ہمارے دل و دماغ کی تمام تر پریشانیوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے- – – – – — – –

ڈاکٹر عابد علی ۔ مدینہ منورہ
دیکھنے اور سننے میں تو انتہائی ضروری شے لیکن اس پر تکیہ کئے بغیر آپ سکون کی نیند نہیں سوسکتے۔ جی ہاںتکیہ جسے سندھی زبان میں وہانو، انگریزی میں پلو، فارسی میں بالشت، ملیالم میںتالینا، بنگلہ میںبالیش، تگالو میں ٹوٹو، عربی میں موخدہ کہا جاتا ہے۔ جب ہم تمام دن بھر کی مصروفیات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میںکامیاب نہیں ہوپاتے اور جب اپنے ہدف کو مکمل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ذہن پر ہزار ہاتفکرات اور پریشانیاں سوار ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہم اپنے بستر پر جاتے ہیں تو نیند کا نام و نشان بھی تصور میں نہیں ہوتا ۔
ایسے میں تکئے پر اپنا سر رکھتے ہیں تو اس کا نرم و نازک وجود اور لچک ہمیں دلی فرحت بخشتی ہے ۔ یوں تکیہ ہمارے دل و دماغ کی تمام تر پریشانیوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور بدلے میں پرسکون نیند کا تحفہ ہماری نذر کرتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر دکھ، دھوکااور تکلیف گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ جن سے ہم پیار کرتے ہیں ، جن پر بھروسہ اپنی ذات سے زیادہ بڑھ جاتا ہے ، جن کے بنا زندگی کا تصور بھی برا لگتا ہے، پھر ان سے بہت سی امیدیں بھی وابستہ ہوجاتی ہیں اور دل و دماغ ان پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ جب ایسے میں اپنے ہی دھوکا دے جاتے ہیں تو انسان ایک ایسے گلاب کی مانند ہوجاتا ہے جسے کسی چاہنے والے نے بے دردی سے توڑ دیا ہو اور سرِ راہ تن تنہا پھینک دیا ہو۔ جس میں مہک تو بہت ہوتی ہے مگر زندگی کی رونق نہیں ہوتی۔اس دوراہے پر انسان کسی کانہیں رہتا بس تنہائی اور خاموشی ہی اسے راس آتی ہے۔ ایسے میں صرف تکیہ ہی ہمارا غم گسار بن جاتاہے اور جب ہم اس پر اپنا سر رکھتے ہیں تو لاتعداد آنسوؤں کی لڑی ہماری آنکھوں سے بہہ نکلتی ہے اور یہ تکیہ کسی راز دار کی طرح سارے آنسو ، سارے غم ، ساری تکلیفیں اپنے اندر جذب کرلیتا ہے، پھر رات گئے جب آنکھوں سے اشکوں کا ساون چپکے سے نیند کی آغوش میں لے جاتا ہے اور صرف یہ تکیہ ہی ہے جو ہماری محرومی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتا ہے اور پھر اپنے چاہنے والوںکی کمی کی شدت آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہے تو بالآخر ہم روکر ،تھک ہار کر اپنا سر تکئے پر رکھ کر سوجاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نیند تو ایسی چیز ہے جو سولی پر بھی آجاتی ہے ۔
پرانے زمانے میں جب فیشیل ٹشو ایجاد نہیں ہوئے تھے ،بے چارہ تکیہ ہی عاشقوں کے آنسو جذب کیا کرتا تھا اور ان تکیوں پر خواتین کڑھائی کے ذریعے بیل بوٹے بناکر یہ اشعار لکھا کرتی تھیں:
بلبلو شور نہ کرو میرے صنم سوتے ہیں
تم تو اڑ جاتی ہو وہ مجھ پہ خفا ہوتے ہیں
٭٭٭
کوشش کروں، ہزار نہ آئیگی مجھ کو نیند
تکیہ ہے نرم ،بیوی کا برتاؤ سخت ہے
بے معنی و بے محل جملوں یا الفاظ کے بارے میں جن کو بار بار دہرایا جائے 146146تکیہ کلام145145 کہتے ہیں۔ بقول داغ دہلوی
ہر وقت داغ کایہی تکیہ کلام ہے
میرے حضور مجھ کو تو نگر بنائیں گے
تکیہ کلام ابھی اور بھی ہیں جیسا کہ146146 فرمائیں جی، لوکرلوگل، جائے جہنم میں، ہاں جی، واہ کیا خوب، جانے بھی دو، غصہ تھوک دو، مٹی پاؤ جی، قسم سے، کمال ہے ، اللہ جھوٹ نہ بلوائے، توبہ توبہ 145145کے علاوہ انگریزی میں بھی 146146ونڈرفل، شٹ اپ، آئی سی، ایگزیکٹلی، ایکچوئلی، بائے دی وے، بائی گاڈ، او مائی گاڈ اور آف کورس145145 وغیرہ۔
ہائے رے تکئے تری شان تو کبھی سرہانہ ہے تو کبھی درباروں میں گاؤ تکیہ پھر کیوںنہ تجھ پہ تکیہ کریں

پِلّو، تکیہ“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں