پولیٹیکل اسلام اور حصول پاکستان

افکار تازہ
afkare taza
عارف محمود کسانہ
اسلام مذہب کے طور پر تو جاری رہا بلکہ آگے بڑھتا رہا لیکن پولیٹیکل اسلام کا تسلسل نہ رہ سکا ۔خلفاء راشدین کے دور کے بعد جب ملوکیت نے خلافت کی جگہ لی تو اسلام دین کی بجائے مذہب کا شکل اختیار کرگیا۔ سیاست اور مذہب دو الگ الگ شعبے بن گئے۔ اس طرح اسلام دین کی حیثیت سے ایک قوت نافذہ کے طور پر جاری نہ رہ سکا۔ بقول اقبال اسلام جس نے محکوم انسانوں کو دوسروں کے تسلط سے نجات دلائی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اسی پر ملکوکیت کا غلبہ ہوگیا۔ نسلی و قبیلائی تعصبات اور فرقہ واریت نے اسلام کی ایک ملت اور ایک قوم کے نظریہ کو پس پشت ڈال دیا۔اسلام کا شورائی نظام محض ایک نظریہ بن کر رہ گیا کیونکہ اسلامی تاریخ میں بنو امیہ، بنو عباس، بنی فاطمہ اور دیگر خاندانی حکومتیں جس کی آخری کڑی خلافت عثمانیہ تھی۔حصول اقتدار کے لیے ہر جائیز و ناجائز ذرائع اختیار کیے گے۔ریاست کا اقتدار بادشاہوں کے پاس چلا گیا جبکہ مذہبی رسومات طبقہ علماء کا حق ٹھہرا۔عیسائیت کی طرح اسلام میں بادشاہت اور مذہبی پیشوائیت کا گٹھ جوڑ ہوگیا اگرچہ علماء حق نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔مذہبی پیشوائیت، بادشاہ وقت کے حق میں سند جاری کرتی اور خطبہ جمعہ میں اس کا درس دیا جاتا۔ حیرت یہ ہے کہ اب بھی کئی بار خطبہ جمعہ میں اس دور ملوکیت کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ السلطان ظل اللہ یعنی سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ ہم اگرچہ یہ نہیں سمجھ سکے لیکن اغیار کو یہ حقیقت معلوم ہے اور کچھ عرصہ قبل معروف سویڈش مصنف اور اسلامی امور کے ماہر Jan Hj228rpe نے واضع طور پر لکھا کہ اسلام میں مذہبی پیشوائیت نہیں ہے۔ دین کا مقصد تزکیہ نفس کے ساتھ اسلامی ریاست قیام بھی ہے اور رسول اکرم نے دونوں کام کیے۔
اقوام یورپ نے جب سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر صلاحیتوں کے باعث انیسویں صدی سے اسلامی دنیا کو اپنے نو آبادیاتی نظام کا حصہ بناتے ہوئے انہیں اپنے زیر نگین کیا لیکن ساتھ ہی انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی دی۔ مذہبی علماء خوش تھے کہ انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہر غاصب قوم اپنی محکوم قوم پرستش کی آزادی دیتی ہے تاکہ وہ اسی میں مست اور غلامی پر رضا مند رہیں۔برطانوی دور کے مذہبی راہنماء بہت خوشی سے اعلان کرتے تھے کہ
حکومت نے تم کو آزادیاں دی ہیں پرستش کی راہیں سرا سر کھلی ہیں
بجتا ہے چرچ میں فقط اتوار کو گھنٹا سن خور و اذان گونجتے ہیں روز برابر
اس دور کے مذہبی طبقہ کی صورت حال کو کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عطا۶ اللہ شاہ بخاری، جمعیت علماء ہند اور دوسرے کانگریسی علماء کی جانب سے دو قومی نظریہ کی مخالفت اسی بنا پر کہ وہ اسلام کو محض ایک عقیدہ اور مذہب خیال کرتے تھے۔ وہ پولیٹیکل اسلام کی اہمیت سے بے بہرہ تھے اور اقوام یورپ کے نیشنل ازم کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کے علمبردار تھے۔علامہ اقبال نے اسی لیے کہا کہ ابھی تک ان لوگوں کو دین اسلام کی رمز نہیں جان سکے وگرنہ دیوبند کے ایک عظیم عالم حسین احمد مدنی کیوں یہ کہتے کہ قوم دین سے نہیں بلکہ وطن سے بنتی ہے۔ اْن کے نام اپنے ایک خط میں علامہ نے اپنا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا۔ کانگریسی علماء کی حقیقت کو اکبر آلہ آبادی نے بہت خوب انداز مین یوں بیان کیا کہ
کانگریس کے مولوی کا کیا پوچھتے ہو حال گاندھی کی پالیسی کا تھے عربی میں ترجمہ
دوسری عالمگیر جنگ کے نو آبادیاتی نظام کی جہت جب بدلنے لگی اور اقوام یورپ نے مسلم دنیا سے اپنا تسلط ختم کرنا شروع کیا اور ساتھ اْن میں نیشنل ازم کا بیج بو دیا۔ خلافت عثمانیہ کے کئی ٹکڑے کرکے ہر ایک کے ہاتھ میں الگ پرچم تھما کر انہیں بتایا کہ تم ایک دوسرے سے مختلف قوم ہو۔ کہنے کو تو آزاد اسلامی ممالک وجود میں لیکن حقیقت میں ایک نئے تسلط کا آغاز ہوا جس میں اسلام مذہب کے طور پر تو موجود ہے لیکن دین کی حیثیت سے محو ہوگیا۔مسلم معاشرہ جو پہلے ہی فرقوں اور قبیلوں کی وجہ سے منقسم تھا اور قومیت کے جال میں ایسا پھنسا ہے کہ رہائی کی کوئی صورت نہیں اور نہ ہی اب مسلمانوں کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہے۔دور حاضر میں مسلم دنیا میں جو جنگ و جلد جاری ہے اس کا ایندھن دونوں جانب سے مسلمان ہی ہیں۔ اْن دشمنوں کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے مسلم دنیا کا جوہر قابل ضائع ہورہا ہے۔ جدید نیشنل ازم نے نوع انسان کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا لیکن اس پر ملمع کاری کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس جیسے خول چڑھانے کی کوشش کی۔ بقول حکیم الامت
مکے نے دیا خاک جینوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
اسلامی تاریخ میں چوہدری رحمت علی وہ پہلے راہنماء ہیں جنہوں نے دین اور نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کا تصور دیتے ہوئے اس کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ اسلام میں سیاست دین کا حصہ ہے۔ اسلام قومیت کی بنیاد رنگ و نسل یا علاقائی نسبت کی بجائے مشترکہ نظریہ اور نظام حیات کو قرار دیناہے اور اسی کی تشریح علامہ اقبال نے پوری عمر کی اور یہی نظریہ انہیں جناح کو سمجھانے میں دس سال لگے۔ جب جناح نے اس نظریہ کو سمجھ لیا تو وہ قائداعظم کے لقب سے موسوم ہوئے اور دنیا کے نقشہ پر ایک بار پھر مشترکہ نصب العین کی بنیاد پر پاکستان کی ریاست معرض وجود میں آئی۔ قائد اعظم نے درست کہا تھا کہ پاکستان کامطالبہ ہم نے محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم وہ سرزمین حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلامی قوانین اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اُن کا یہ ارشاد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہے۔ پاکستان درحقیقت پولٹیکل اسلام کا احیاء ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس مملکت سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے کے لیے اس کا شہری ہوناضروری نہیں۔
اپنا تبصرہ لکھیں