پری ٹوکے یا جن روکے ……

پری ٹوکے یا جن روکے ……… فیصل حنیف

“میری جان فیصل ہمہ دان،  کن اوہام میں گرفتار ہو؟ مجھ کو اپنے حال پر کیا ہنسی آتی ہے، میں مجبور و مقہور بوڑھا تمہاری الفت کی خاطر دام بلا میں آ پھنسا – تم مشاعرہ کہہ مجھ غریب کو تماشا دکھا لائے- نطق میں زور نہیں، سر میں شور نہیں، خاک ایسے مشاعرے پہ- مجھ کو یاد پڑتا ہے تم دوحہ کے مشاعروں کے باب میں ہر دم رطب اللسان تھے- ہائے، ستم ظریف تم نے کیا کیا، مجھ کو ‘ڈی قطار’ میں لا بٹھایا، میں بھولا آدمی حرصا حرصی چپک گیا-  جو آگے بیٹھے وہ عالی جناب اورنجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ نواب مرزا اسداللہ خان غالب ذلت مآب- تم کو مجھ سے تعلق ازروئے تمسخر ہے تو خیر اور اگر ازروئے الفت ہے تو مجھ کو بخش دو-  تمہارا مصرع

لوگ ہاتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

میں ‘ہاتھ’ آنا’ ہی مناسب معلوم ہوتا ہے”

“مرزا صاحب، اول تو یہ مصرع میرا نہیں اس میں خنجر تصرف کر کے آبداری یہاں کے ایک قابل شاعر جناب افتخار راغب نے بھری ہے- دوم، میں مانتا ہوں کہ مشاعرے نے آپ کو دل گرفتہ کیا – آپ کو ‘ڈی قطار’ میں بیٹھنے کا دکھ ہے تو بتلائیے، آپ وہاں گئے کیوں؟اپنا دامن ناز خود کیوں نہ سنبھالا؟  ہو جس کو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟ میں ذمہ دار تو آپ قصور وار- آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا-  آپ اس واسطے نالاں تو نہیں کہ آپ کو اس مشاعرے میں شامل نہیں کیا گیا؟ میں نے عرض کیا تھا کہ اس بار انتخاب کڑا تھا، اگلی بار آپ کو شاید موقع مل جائے- کےآمدی و کے پیر شدی؟ مرزا صاحب، آپ جو کہتے ہیں وہ راست گفتاری ہے، پہ اصل یہ بھی ہے کہ آپ اس زمانے کے مزاج سے کما حقہ واقف نہیں- مشاعرے کے باب میں آپ کے ذوق ستم کو دیکھ  کر مجھ کو غش آتا ہے-”

“میاں لڑکے، بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو … میں قصور وار،  آفت میں گرفتار، تمہاری الفت کا بار اٹھائے پھرتا ہوں- پہ اصل یہ ہے کہ  تمھارے مشاعرے کے دیکھنے سے میری آنکھوں کا نور بجھ گیا- عیاں راچہ بیاں- مجھ کو تم نے کس پیچ و تاب میں ڈال دیا- میری مٹی پلید کر دی- ہائے ہائے-”

~~~~~~~~~~~~~

“خیر یہ قصہ جانے دیجیے، ان سے ملیے، ہمارے دوست، آپ کے عاشق، جناب وزیر احمد پریاری، شعر کہتے ہیں پہ آپ کو سنانے سے گھبروایں گے -”

“مرزا صاحب، آداب عرض کرتا ہوں- دوحہ کے مشاعرے کے باب میں آپ کی تنقید اور بیزاری کا جہاں میں چرچا ہے- ڈنمارک افرنگ میں بہ زبانی ایک طائر ناطق، جناب نصر ملک کو بھی خبر ہو گئی- آپ کو آداب کہلوا بھیجا ہے-  آپ کا ملنا خوبی قسمت سہی، پہ سچ ہے کہ آپ کی رائے سخت اور کچھ بے محل ہے- وقت وقت کا راگ اچھا ہوتا ہے – مجھ کو  کسی نے کہا تھا کہ راحت اندوری کا یہ شعر آپ کے گوش گزار کر دوں- سنیے-

میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤنگا

تم آفتاب میں____کیڑے نکالتے رہنا

“وزیر بھائی، مرزا صاحب کا اس شعر سے کیا علاقہ؟ کیا اسی شعر کے نور کا ظہور راحت اندوری کے چہرے پر ہے؟  میں حیران ہوں سورج میں کیڑے کس نے ڈالے؟ ‘آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا’ سے اس کا تعلق معلوم ہوتا ہے- اگر یہ شاعری ہے تو ایسا ایک ‘شعر’ مجھ سے بھی سنیے- اب شاعر بننا کونسا مشکل ہے- تضمین حاضر ہے- آگے سنا دیجیے گا-

“میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤنگا”

تم اپنے شعروں میں کیڑے ہی ڈالتے  رہنا

“شعروں میں کیڑے ڈالتے رہنا، واہ ڈاکٹر صاحب، بلاغت آپ کے قدموں میں لوٹے جاتی ہے- کیڑے ڈالتے رہنا..واہ- مضمون ایسے اوج پر لے گئے کہ سورج  تارا ہو گیا- ”

“شکریہ وزیر بھائی، راحت اندوری کے شہر کے ایک بڑے اور جدید طرز کے شاعر جناب آفت اندوری المعروف  شعر شکنوی    کی خیال آفرینی بلکہ پہلوان سخنی دیکھیے، رستم سامنے ہوتا، یہ شعر سنتا تو راہ بچا کر ٹل جاتا–عبارت کی دھوم دھام ایسی کہ زمین و آسمان کو تہ و بالا کر دے-

مچھلی بن کر کے ہواؤں میں، میں اڑ جاؤں گا

بیٹھ کر تم کسی دریا کو ہنساتے رہنا

مچھلی کا اڑنا اور دریا کا ہنسنا پرلے درجے کی جدت طرازی ہے جس کا تعلق شاعر کے جدید بے مثل تخیل اور ایجاد و اختراع پسند دماغ سے ہے- جنھیں زبان کا مزا ہے،  وہی اس لطف کو سمجھتے ہیں، اس شعر کے سننے والے کلیجہ پکڑ کے رہ جائیں۔ سمجھنے والے گونگے ہو جائیں-”

“میاں وزیر کمال صورت، میاں فیصل جلال صورت، میں اس یاوہ گوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا- میرا یہاں آنا ایسا گناہ عظیم ہے جو کبھی بخشا نہ جاوے گا-”

“مرزا صاحب، شعر تو وزن میں ہے، آپ کیوں حیران ہوتے ہیں؟”

“لڑکو، تمہاری جگہ میرے دل میں، پہ تمھارے ان شعروں کی جگہ کوڑے دان میں ہے- جان لو، شاعری خیال آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں- ہائے کسی کا کیا اچھا شعر ہے-

شعر میں معانی دلکش سے مزا ہوتا ہے

صرف موزونی الفاظ سے کیا ہوتا ہے

“مرزا صاحب، یہی اب زمانے کا مزاج ہے، یہی شاعری ہے- آپ لاکھ جھٹلائیں-”

” راحت اندوری کون ہے؟”

“مرزا صاحب، راحت اندوری اس دور کا ایک مسلم الثبوت استاد ادکار ہے، پردہ سیمیں پر کام نہیں ملا اس لیے اب مشاعروں کے اسٹیج سے اداکاری کرتا ہے،اور خوب کرتا ہے – اکثر شعراء اس کی نقالی کرتے اور منہ کی کھاتے ہیں- ”

~~~~~~~~~~~~~

“میں اس بے معنی بحث میں نہ الجھوں گا، میرا دل جل کر خاک ہوا جاتا ہے، شعر و سخن کی ایسی مجلس کی صورت بناؤ کہ آنکھوں میں نور بھر جائے  اور دل میں سرور اتر جائے-”

“جناب دبیر الملک، شکر کی جا ہے – آج دوحہ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جاتا ہے- ایسی شان و شکوہ کی محفل آپ نے دیکھی نہ ہوگی- بس تیار ہو جائیے-”

“دعوت نامہ کا انتظام کرو تو چلیں-”

“مرزا صاحب، اس محفل کی خوبی کہ یہاں داخلے کے لیے دعوت نامہ کو کچھ دخل نہیں- ہاں، کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا، اگلی نشستیں یہاں بھی خواص کے لیے مخصوص ہیں – وہاں  بیٹھنے کے لیے اردو سے لا تعلقی شرط ہے-”

“ہوں..  پھر ہم کو نا اہل جانو- مجھ کو اپنی عزت عزیز ہے، ڈرتا ہوں کہیں نشست کی جا نہ ملے-”

“مرزا صاحب، اگر دعوت نامہ طلب کیا تو شاید آخری صف میں بٹھا دیں، بصورت دیگر نشست مل جانے کا امکان ہے-”

“میں اجنبی نیم جاں، بوڑھا ناتواں، مفلس جہاں، نظیر کا مصرع’ مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی’ سوچ کر وحشت ہوتی ہے-”

“مرزا صاحب، فکر و تردد کو دل میں جا نہ دیجیے- اس محفل کا خاص مزاج ہے، یہاں جوتیوں پہ صرف منتظمین عام کو بٹھایا جاتا ہے- منتظمین خواص اردو سے نا بلد ہونے کے باعث اگلی نشستوں میں جا پاتے ہیں-”

“برخوردار، انتظام تو بھلا ہے، دیکھو مشاعرہ شروع ہوا چاہتا ہے- ارے، یہ تو کوئی صاحب  تقریر فرمانے لگے- خواص میں سے معلوم ہوتے ہیں، شعر و سخن سے نا آشنائے محض، اردو سے ان کو اسقدر تعلق معلوم ہوتا  ہے جو ابراہیم ذوق کو فارسی سے تھا- حق تعالی محفوظ رکھے کسقدر طویل اور بے معنی گفتگو ہے- بے سری بے ٹھکانے کی الجھی تانیں- ادھر دیکھو، یہ دوسرے صاحب انگریزی میں خطاب فرمانے لگے- میں انگریزی زبان سے نا واقف، تم بتاؤ حضور کا مدعا کیا ہے؟”

“جناب مرزا،  یہ صاحب، پہلے صاحب کی طرح  کسی دوسرے کی لکھی ہوئی تقریر اٹھا لے آئے ہیں – ان کو انگریزی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا استاد ذوق کو تھا-”

“یعنی ذوق کو انگریزی سے؟”

“نہیں مرزا صاحب، ذوق کو آئس لینڈک سے -”

“اس مقرر کا بیان خدا جانے، اس مجہول مطلق کی آواز اس جانور سے مشابہ ہے جس کی آواز صرف اسی سے ہی مشابہ ہے- کوئی توجہ کرو اور بہ دل اس کا معالجہ کرو- ”

“اچھا میاں،  میں لب تشنۂ تقریر بھی نہیں تو پھر آنکھوں کے آگے بجلی بار بار کیوں کوند جاتی ہے؟”

“استاد محترم یہ بجلی نہیں، آلہ تصویر، جس کو کیمرہ کہتے ہیں، کی روشنی ہے- اسٹیج پر موجود لوگوں کی تصویر کشی ہو رہی ہے-”

“لڑکے، یہ مشاعرہ کی کیا روش ہے؟ مشاعرے میں تقریر اور تصویر کی کیا ضرورت؟ یہ تو مشاعرہ کشی ہوئی- ”

“اے عظیم شاعر، اے سادگی کے پیکر، اصل کام یہی ہے، تصویر اور تقریر کے لیے ہی تو مشاعرہ ہو رہا ہے-”

تقریروں کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی- دل سے آواز آہ گزرنے لگی، آنکھوں میں عالم سیاہ ہونے لگا- میرا کلیجہ بیٹھا جاتا ہے، اس عذاب سے خلاصی کراؤ اور فقیر کی دعا لو-میں جان گیا تم نے مجھ کو آزار پہنچانے کا ایک نیا رنگ نکالا ہے- مشاعرہ کہہ مجھ کو وہاں لے جاتے ہو جہاں میں سانس نہیں لے سکتا- ضعف قسمت، اب جب بھی ان دو مشاعروں کو سوچوں گا یوں ہی رویا کروں گا-اپنے بخت اور قسمت کو کوستا رہوں گا –  ”

“واہ حضرت، حد ہو گئی- یہ دوحہ کی پرانی تنظیموں میں سے ایک ہے، بے شمار مشاعرے کر چکی، کئی ایوارڈ دے چکی، آپ کو ان میں بھی برائی نظر آتی ہے- آپ نے اپنے دوست مولوی فضل حق کے لگڑ بھگڑ پوتے کا انتظار بھی نہیں کیا- وہ شاعر نہ سہی، نامور تو ہیں- اور پھر آپ کے فرزند ٹھہرے-اب میں آپ سے ایسی کوئی بات سننے کو آمادہ نہیں-  آپ بے شک خفا ہوں-”

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

آخر گناہگار ہُوں کافر نہیں ہُوں میں

“میاں لڑکے، میرا شعر مجھ کو سنا کر، اپنے حق میں اس کی داد چاہتے ہو؟ واہ صاحب واہ! یہ شعر میں نے گویا آج کے دن کے لیے ہی کہا تھا- جس کو دیکھو مجھ سے ملال رکھے ہے، مجھ کو ایوارڈ کیوں نہ دیا؟ میں فقیر بے سوال سہی، بے زبان نہیں- بے طور، ناقص زبان و نا اہل مشاعرے اور مشاہرے لوٹیں، خوش طبع، زبان آور، سخنور تماشائی بنے دیکھیں- شرفا کی خواری،  پاجیوں کی گرم بازاری مجھ کو منظور نہیں-”

“نواب مرزا اسداللہ خان، آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟”

“میرے فرزند دلبند، اب مجھ کو تم سے دوستی نہیں دشمنی ہے، الفت نہیں کلفت ہے- میں اپنے قول میں صادق ہوں، سچ صاف اور بے تکلف کہوں گا ، اب پری ٹوکے یا جن روکے- “

اپنا تبصرہ لکھیں