پدرم سلطان بود

حصہ دوم
red iftikhar......
افتخار چودھری

باپ سے اچھا کون ہو گا لیکن والد صاحب جنہیں ہم چا چا جی کہا کرتے تھے سچ پوچھیں ایک منصف ایک شفیق باپ کے ساتھ شہر کی جانی پہچانی شخصیت تھے ۔سیاسی میدان میں ایوب خان حکومت میں اترے پہلا زینہ بنیادی جمہوریت میں ممبر کی حیثیت طے کیا ممبر منتحب ہوئے۔اب تو کہتے ہیں کہ جنی کنی سرمہ ڈالتی ہے اور چودھراہٹ بنا لیتے ہیں اس وقت تصور کریں جب اکائیوں میں فاصلے بہت تھے پنجاب بہت پسماندہ تھا ہزارے وال اور وسطی پنجابیوں میں ثقافتی دوریاں تھیں زبان مختلف تھی کھانا پینا الگ۔کہتے ہیں جب محلے کی عورتیں بیمار ہوتیں تو پہلی دوائی ہمارے گھر سے لیا کرتی تھیں اور وہ چائے تھی جو پنجابی لوگ نہیں پیا کرتے تھے۔بے جی نے ان کی سیاسی معاونت میں کمال کی حدیں طے کیں۔ہم گجر لوگ اس وقت بھینسوں کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل سمجھتے تھے ہمارے دروازے پر دو نہیں تو ایک لویری ضرور ہوتی تھی۔ اس کی سنبھال بے جی کو کرنا ہوتی تھی والد صاحب دودھ دھوتے تھے۔سادہ زمانہ تھا سالن وغیرہ کا رواج بھی نہ تھا دودھ دہی لسی سے کام چل جاتا تھا۔بنیادی جمہوریت کے نظام میں حصہ دار بنے۔علاقائی

تعصب کی بناء پر ایوب خان کا ساتھ دیا۔جس دن الیکشن تھے میں نے انہیں خوبصورت شیروانی میں دیکھا پھول کا نشان سینے پر آویزاں کیا اور ایوب خان کی کنونشن لیگ کو ووٹ دیا۔یوں ہم آمر کے ساتھی کہلائے جا سکتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے ہمیں اتنا یاد ہے سال چوسٹھ تھا عمر نو سال ہمیں بس کچھ نعرے یاد تھے ایرہ وغیرہ چھوڑ دو برخور دار کو ووٹ دو یہ چودھری برخودار میرے والد تھے ۔ساتھ والی گلی میں چا چا حمید لوہار سیٹھ مبارک جیتے چیئرمین حاجی کریم بنے ۔قبلہ والد صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ فیکٹری میں کام بھی کرتے اور انتہائی نفیس لباس زیب تن کرتے جرگے کے بندے تھے مجال گئی فضول لغو لوگوں کے ساتھ بیٹھک کی ہو۔اپنی فیکٹری میں مہمان خانہ بنایا اور گھر میں ایک مہمان خانہ ضرور رکھا۔کبھی کسی کو گلی میں کھڑے ہو کر روانہ نہیں کیا دروازہ کھلواتے چائے وغیرہ پیش کرتے۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ مہمان بغیر کھائے چلا گیا ہو۔ہم بھائی اوپر کے نیچے کے تھے مہمانوں کے آگے چائے رکھتے کوشش ہوتی جو بسکٹ بچ جائیں وہیں ہڑپ کر جائیں خاص طور پر کھنڈ والے بسکٹ مجھے آج بھی بہت یاد آتے ہیں ایک بچے کی تصویر والے

بسکٹ جن کے اوپر چینی لگی ہوئی ہوتی تھی وہ ہمارا پسندیدہ بسکٹ تھے جو کبھی میں کھا جاتا تو کبھی بھائی۔شہر میں ابھرتے ہوئے صنعت کار تھے گجرانوالہ ہنر مندوں پہلوانوں اور بٹوں کا شہر ہے۔کسرت،ہنر مندی اور بٹ گردی میں ان کا رہنا اور بڑے دلیرانہ انداز سے رہنا ہمارے لئے فخر ہے۔کبھی کسی بدمعاش تلنگے سے نہیں ڈرے۔اور شائد یہ چیز ہمارے خون میں بھی ہے کہ کسی آمر ڈکٹیٹر اور رنگ باز سے ڈر نہیں لگا۔ایک ماجھو بدمعاش تھا جس کے نام پر فلم بنی ہے۔ایک بار فیکٹری اس کے دوست کو کرائے پر دی۔سندھ کی زمینوں سے ناکام واپس آئے تو اس نے خالی کرنے سے انکار کر دیا الٹا ماجھو وہاں آنے لگا باغبانپورہ کے لوگ کہنے لگے اب دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کیسے کارخانہ خالی کرواتے ہیں۔ایک دن ماجھو کارخانے آیا

ہوا تھا والد صاحب بندوق لے کر پہنچ گئے یہ شائد ۱۹۷۵ کی بات ہے ۔

۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں