پاکستانی معاشرہ جمہوریت اور انقلاب

پاکستانی معاشرہ جمہوریت اور انقلاب

راجہ محمد عتیق افسر
مملکت خداداد پاکستان میں جمہوریت کا راگ ہر خاص و عام الاپ رہا ہے۔ جسے بھی دیکھو وہ ملک کو جمہوریت کی پٹری پہ گامزن دیکھنا جا ہتا ہے خواہ وہ اس اصطلاح کے معانی و مفاہیم سے آگاہ ہو یا نہ ہو ۔البتہ یہ لہر اس حوالے سے خوش آیند ہے کہ ملک کے جمہور سوائے جمہوریت کے کسی اور راستے کو دل میں جگہ دینے کو آمادہ و تیار نہیں۔ جمہوریت کا لفظی مطلب عوامی اقتدار ہے ۔ یعنی عوام کی منشا سے قائم کردہ حکومت جو عوام کی خواہشات کے مطابق حکمرانی کرے۔اگر اس تعریف کے مطابق پاکستان میں جمہوری نطام ترتیب دیا جائے تو صورت حال کیاہو گی؟  ملک کی اکثریت یعنی  ٧٠  فی صد آبادی ناخواندہ ہے جو پڑھنے لکھنے اور سمجھنے سے یکسر قاصر ہے۔اس عوامی اکثریت سے وہ حکومت معرض وجود میں آئے گی جو نہ تو عوامی خواہشات کو سمجھ سکتی ہے اور نہ حالات کا نوشتہ دیوارپڑھ کر ان کا مستقبل سنوارسکتی ہے۔  ہمارے ملک کی غالب اکثریت غربت وبے روزگاری کا شکار ہے اور ظلم کی ایسی چکی میں پس رہی ہے کہ اپنے کسی حق کے خلاف آواز تک بلند کرنا تو درکنار اپنے حق کو پہچاننے سے بھی گریزاں ہے۔ ان کی بنائی ہوئی حکومت وسائل کے ہوتے ہوئے مالی بحران کا شکار استعداد کے باوجود پیداراری کمی کا شکار اور اقوام عالم میں اپنے ملکی مفادات اور قومی سلامتی کے لیے آواز بلند کرنے سے قاصر ہو گی ۔تعلیم کی کمی کے باعث ملک کی اکثریت تربیت کے فقدان کا شکار ہے ۔چہار جانب اخلاق باختگی، حرص، ہوس ، لاقانونیت ، بددیانتی اور دیگر سماجی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ ہر کوئی حتی الوسع دوسروں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔جو حکومت اس اکثریت کی خواہشات کی ترجمان ہو گی اس میں بددیانتی، کرپشن ، لاقانونیت، میرٹ کا استحصال اور اخلاق باختگی عیاں ہو گی۔ اگر ماضی کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں عوامی امنگوںکی ترجمانی کرتی رہی ہیں ۔ایسی ہی حکومتیں معرض وجود میں آتی رہی ہیں جو عوامی جذبات سے لاعلم، حقوق و فرائض سے غافل ، کرپشن اور بددیانتی کی مظہر، اور اخلاقی اقدار سے یکسر عاری  رہی ہیں ۔جس طرح ہمارے عوام احساس کا بے جان صحیفہ بنے  اپنے ہی ضمیر کی دکانیں سجائے ہوئے ہیں اورزیادہ بولی لگانے والے کے ہاتھ اپنا ضمیر و ایمان فروخت کر دیتے ہیں اسی طرح ہمارے حکمران اپنے مفادات پہ فدا ہو کر انہی عوام کا خون چوس لیتے ہیں ۔عوام بلا جھجک انہیں منتخب کرتے ہیں اور وہ بلا تامل انہی کو گھائو لاگاتے ہیں ۔قصہ مختصر یہ کہ جو دیگ میں ہے وہی چمچے میں آئے گا۔ یہی سیاسی مداری بہروپ بدل کر انقلاب اور تبدیلی کی صدا بلند کر تے ہیں تو عوام یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کے اس مداری کے ہاتھ میں لہراتی چھڑی ہی تمام مسائل کا حل ہے ۔ مگر وہ مداری چھڑی سمیت ایوان اقدار میں گم ہو جاتا ہے اور عوام آنکھیں ملتی رہ جا تی ہے۔بقول اقبالخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہوخیال جسے آپ اپنی حالت کے بدلنے کایہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کو انقلاب کی ضرورت ہے مگر دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں وہ کسی حادثے کا ثمر نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے طویل ومسلسل جدوجہد اور ارتقائی عمل کارفرما ہے ۔اس عمل میں لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کی جاتی ہے، انہیں تبدیلی پہ آمادہ کیا جاتا ہے ، تربیت کے ذریعے انہیں اس تبدیلی کا مظہر بنا دیا جاتا ہے۔ ان کے رگ و پے میں انقلاب رچ بس جاتا ہے وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی جدوجہد جاری رکھتے ہیں اور بالآخر انقلاب برپا ہو جاتا ہے جو عوامی خواہشات کا آینہ دار ہوتا ہے۔جبکہ ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہماری اکثریت ملک کو تو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتی ہے مگراپنی ذات کو تبدیل کرنے پہ ہرگز آمادہ  وتیار نہیں ۔کسی بھی جگہ قطار میں کھڑے ہونا تو گوارا نہیں مگر خواہش یہ ہے کہ ملک میں میرٹ کی بالادستی ہو۔خود تو بجلی گیس اور دیگر وسائل چوری کرتے ہیں مگر حکومت سے توقع ہے کہ وہ منصوبوں میں گھپلوں سے باز رہے۔خود رشوت کے لین دین پہ فخر بھی کرتے ہیں اور حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ دیانتدار رہے۔الغرض ہر کوئی حتی المقدور جرائم کا مرتکب بھی ہے اور اس پہ فخر بھی کرتا ہے مگر وہ تبدیلی کے نعرے بھی لگاتا ہے۔ تبدیلی و انقلاب کے لیے ایسا گروہ ناگزیر ہے جس کے افراد انفرادی طور پہ ان اوصاف کے حامل ہوں جنہیں وہ معاشرے میں رائج دیکھنا چاہتے ہوں۔ان کی اجتماعیت بھی انہی اوصاف کی نمونہ ہو۔وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول پہ اثرات مرتب کر رہے ہوں ۔ اگر وہ جمہوریت کی بات کریں تو ا کی جماعت میں جمہوری اقدار کی جھلک ہو، اگر وہ شفافیت کی بات کریں تو ان کے کردار ایک کھلی کتاب کی مانند ہوں ۔وہ مساوات کی بات کریں تو جماعت کے اندر تفاوت مراتب کا معیار واضح ہونا چاہیے۔اگر وہ حکومتی انصرام کی بہتری کے خواہاں ہیں تو اپنی تنطیمی و انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں ۔ پھر ان انقلاب کے داعیوں کو وہ راستہ اختتیار کرنا ہو گاجس کی جانب عصر حاضر کے عظیم مفکر و داعی انقلاب نے اشارہ کیا ہے(اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے ، کروڑوں کو کم از کم اس حد تک متاثر ہونا چاہیے کہ وہ اس چیز کو حق مان لیں جسے ہم لے کر اٹھے ہیں ۔لاکھوں انسانوں کو ہماری پشت پہ ہونا چاہیے اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہو جو بلندترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصد کے لیے کوئی بھی خطرہ یا مصیبت برداشت کر سکیں ۔) ۔اگر کسی گرہ یا جماعت میں یہ اوصاف ہیں تو وہ انقلاب کے داعی ہیں اور اہل ہیں کہ تبدیلی لا سکیں اور اگر نہیں تو وہ مداری ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں ضروری ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں اور ذہن کو حاضر رکھیں اور خوب سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین۔

12 تبصرے ”پاکستانی معاشرہ جمہوریت اور انقلاب

  1. یہ انقلاب کا داعی کون ہے جس کے لیے عصر حاضر کے عظیم مفکر جیسے الفاظ لکھے گئے اس بیچارے کا نام بھی لکھ دیتے کیونکہ ہر جماعت اپنے ہی لیڈر کو اصل داعی سمجھتی ہے۔

  2. Very Nice. its good analysis of Pakistani Society in context of Revolution & democracy. May Allah bless you

    Wassalam

    Umar Farooq

  3. Assalam u Alaikum

    Despite some composing mistakes ,The columnist has tried his best to give awareness to the Pakistani nation about their rights,obligations.the leaders and representatives. such struggles can b fruitful in changing the hearts of people which can motivate and lead them towards the great revolution. May Almighty Allah bless all well wishers of Pakistan and Muslim world.

    Thanks
    Zain A Khan
    CEO
    Zain Enterprises

  4. Assalam O aliakum.
    Good,I am agree with columnist yes its true when 70% population is unaware of their fundamental rights then how they can differentiate b/w democracy and dictatorship?
    First we have to arm our people with education,education dosn’t mean degrees but social awareness,awareness for their fundamental rights and participation in society.
    May Allah Bless Muslim Umma.amin

  5. Very nice.. Dua hai k qoum jald samajh jaye aur har fard apne faraiz
    zemedari aur haqooq purey karne aur samajhne ki koshish kare..

    “Zindagi yaksar muhrik hai sakoon yaksar mout..

    Kuch na kuch aey noujawan.e.watan karte raho..

    Inteshar ik paish nama hai zawal.e.mulq ka..

    Itehad.e.qoum.o.milat ka jatan karte raho..

  6. boht acha likha hai. Isi tarah likhtey rahein. Shayad ke tere dil mein utar jaey meri baat. Allah karey ke logon ki ankhon pe bandhi patti khul jaey aur wo bhi inqilab key liey tayyar ho jain . Ameen

  7. nice article,keep it up

    Mazhar Farooq Janjua
    Deputy secretary ,
    Prime Minister Secreteriat,
    Muzaffarabad AJK.

اپنا تبصرہ لکھیں