پاکستانی سواریوں کےمزے

Rubina Yasmeen

ترقی یافتہ ملک چاہے جتنی مرضی ترقی کر لیں ،سب وے چلا لیں ،گو بس اپنی برق
رفتار ی دکھا لے ،ایکسپریس بس زناٹے سے گزر جائے یا ٹرین اپنی تیزی سے حیران کر دے لیکن پاکستان کی پبلک ٹرانسپورٹ کے مزوں سے عاری رہیں گے .بلا شبہ پاکستان کی پبلک ٹرانسپورٹ ایک الگ سی دنیا ہے ،ایک الوہی سا احساس ہے . مجھے یاد ہے ایک بار مزدا میں زور دار جھٹکا لگنے سے ایک صاحب غیر اختیاری طور پر ایک خاتون کی آ غوش میں استرا حت فرما ہو گئے . اب وہ ایسے شاک کی کیفیت میں آ گئے کہ جہاں تھے وہیں منجمد ہو گئے .خاتون نے جب دیکھا کہ یہ تو گئے کام سے تو تنک کر بولیں “اب اٹھ بھی جاؤ “یہ جادوئی کلمہ ایک جادوئی لہجے میں سن کر سحر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور وہ واپس اپنے قدموں پر ایستادہ ہو گئے .
پاکستانی پبلک ٹرانسپورٹ میں بس،مزدا ،رکشہ ،ٹرک ،ویگن اور ٹرین شامل ہیں اور سب کے اپنے الگ الگ مزے ہیں.ایک اور خاص سواری یونیورسٹی کا پواینٹ ہوتا ہے ،اس کی بھی اپنی دنیا ہے شیشوں سے بے نیاز ہوادارکھڑکیوں اور بیک مرر سے عاری اس سواری کی یہ خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے کے لئے دروازے کی محتاجی نہیں ،آپ کھڑکیوں اور بیک سائیڈ سے بھی یکساں سہولت سے پوا ینٹ میں داخل ہو سکتے ہیں .
پبلک ٹرانسپورٹ میں لگا ہوا میوزک بھی انسان کا تر ا ه نکا لنے والا ہوتا ہے .پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور کا پسندیدہ میوزک عطااللہ عیسیٰ خیلوی اور نصیبو لعل کے گانوں پر مبنی ہوتا ہے .کچھ با ذوق ڈرائیور منی بیگم اور پنکج ادھاس کو سنتے ہوئے بھی پاۓ جاتے ہیں .صبح کا سہانا وقت ہو آپ اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوں اور ساتھ “توں پھول موتیے دا میں تیری خشبو ماہیا “کے سر فضا میں بکھر رہے ہوں تو زندگی کتنی گلزار لگتی ہے .
رکشہ بھی اپنی مثال آپ سواری ہے .اس میں بیٹھنے والا اپنے انجر پنجر کی انشورنس کروا کے بیٹھے تو بہتر ہے .رکشہ آرٹ بھی قابل دید ہوتا ہے بچے اسی رکشے میں بیٹھنے کی ضد کرتے ہیں جو نئی نویلی دلہن کی طرح سجا سنورا ہو اور شوخ رنگ ڈیزائن سے مزیّن ہو .کم فاصلے کے لئے بہت موزوں سواری ہے اور بلا شبہ خواتین کی روزمرہ خریداری میں بہت کام آتا ہے .
ایک اور سواری سائیکل رکشا بھی ہوا کرتی تھی جو بہاولپور میں چلا کرتی تھی اس میں ڈرائیور نازک اندام سواریوں کو لے کر تو اڑے اڑے پھرتے تھے لیکن بھاری بھر کم سواری کسی آزمائش سے کم نہ ہوتی تھی .بعد میں یہ سواری ختم کر دی گئی تھی اور اس کی جگہ موٹر سائیکل رکشہ نے لے لی تھی .آٹو رکشہ کی ایک اور قسم چنگچی رکشہ ہے جو کہ تانگے کے ڈیزائن پر بنی ہوئی ہے .تانگہ بھی بہت عرصہ استعمال میں رہا اور میرا بچپن جب بھی ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں جاتے تو تانگے کی ٹاپوں کی سحر انگیز آواز کو سنتے گزرا . گاؤں کا ذکر نکلا تو گڈا یاد آ گیا ،چھکڑا بھی اسی سے ملتا جلتا ہے .گڈے پر سب بچوں کو ایسے بیٹھنا ہوتا تھا کہ وہ بیلنس رہے ورنہ وہ ایک جانب “الا ر ” ہو جاتا تھا یعنی جھک جاتا تھا .
ان سب ذرا ئع نقل و حمل کی خصوصیات میں ان کا آرٹ ورک ،ان میں سنی جانے والی موسیقی اور ان میں لکھی جانے والی شا عر ی شامل ہیں .
ان سواریوں میں آپ نے سفر کیا ہو اور نصیبو لعل کا کنڈی نہ کھڑ کا،کدی تے ہس بول وے اور میری پھلاں والی کرتی نہ سنا ہو یہ ہو نہیں سکتا .اگر ڈرائیور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کا فین ہے تو پھر پیا ر نال نہ سہی ،قمیض تیری کالی .دل لگایا تھا دل لگی کے لئے اور چن کتھاں گزاری رات وے جیسے گانے آپ کے پا بہ رقاب رہے ہوں گے .
رکشہ ،ٹرک ،بس اور مزدا میں مشترک بات ان کی سجاوٹ اور ان میں لکھے گئے شعر ہوتے ہیں . یہ شا عر ی بھی بے مثال ہوتی ہے .بعض اوقات دو مصرعی اور بعض اوقات یک مصرعی. کچھ نمونے بمع تبصرہ پیش خدمت ہیں .
کبھی آؤ ناں مردان خوشبو لگا کے .اب جو بھی مردان خوشبو لگا کر جائے وہ اپنی بہ حفاظت واپسی کا خود ذمہ دار ہے .
فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہو جائے گا ،ہنس مت پگلی ورنہ پیار ہو جائے گا ،ہاں آپ کو متنبہ کر دیا گیا ہے اب نتایج کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے .
ایک اور نے اپنی دور اندیشی کچھ یوں ظاہر کی “پیار تے کراں پر تنخواہ بڑی تھوڑی اے .” ایک جیو گرا فیکل قسم کا شعر ہے جو جی پی ایس کا کام دے سکتا ہے ،”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے جہلم کے آگے دینہ ہے “. ایک رکشہ نے اپنی فیو چر پلاننگ یوں ظاہر کی ہے “بڑا ہو کے کرولا بنوں گا “. ایک جگہ اپنی نقاہت کا یوں اظہار کیا گیا ہے “اتنا دبلا ہو گیا ہوں صنم تیری جدائی سے کہ کھٹمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں مجھے چارپائی سے “.
ایک جگہ بڑی کمال کی ڈیل دی گئی ہے “دل بر ا ئے فروخت قیمت صرف ایک مسکراہٹ “. ایک رکشے پر عقبی جانب لکھا تھا “دروازہ پلیز ہولی بند کریں .” ایک بس نے اپنی برق رفتاری کو کچھ یوں بیان کیا ہے ” آوا ں گی ہوا بن کے ” . ایک دوسری جگہ یوں شکوہ کیا گیا ہے “تہ ہون آسین کون ہو گئے ” .
ایک جگہ مشورہ دیا جاتا ہے “سڑ یا نہ کر چندا دعا کریا کر “. ایک ٹرک کے عقب پر تحریر تھا
نظروں نے نظروں میں نظروں سے کہا نظرین نہ ملا نظروں کی قسم نظروں سے نظر لگ جائے گی . ایک اور ٹرک نے اپنی مذہبی پابندی کا کچھ یوں تذکرہ کیا ہے .” میرے مذہب میں شراب پینا حرام ہے اس لئے تیری جدائی میں لسی پی رہا ہوں”
یہ تو تھی کچھ منتخب شا عر ی جس سے آپ نے بھی حظ اٹھایا ہو گا . بلا شبہ یہ ہماری تہذیب ہے ،ہماری شناخت ہے ،یہ سب ہماری زند گیوں کا غیر محسوس انداز میں حصّہ ہے اور اس کی کمی دیار غیر میں رہنے والے محسوس کر سکتے ہیں. اپنے پیارے وطن کی ہر چیز بہت پیاری ہے اور اس ثقافت کی حفاظت اور اس پر فخر ہماری ذمہ داری ہے .اللہ ہمارے وطن کے سارے رنگ یوں ہی سلامت رکھیں .آمین .
روبینہ یاسمین
اپنا تبصرہ لکھیں