پانی اور چٹان

پانی اور چٹان

قسط نمبر ایک

اس کی نگاہیں سامنے کی دیوار پر لگی ہوئی لینڈ اسکیپ پینٹنگ پر مرکوز ہو گئیں۔۔۔۔ ایک تنہا چٹّان ۔۔۔ پاس ہی لہریں مارتا ہوا نیلگوں پانی۔۔۔۔ اُس پانی پر بہتی ہوئی کشتی۔۔۔آم کے کسی باغ سے کوئل کی آواز۔۔۔۔ کھڑکی کے اُدھر لگے ہوئے بیلے کی مہک۔۔۔۔ سب ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ دور کہیں شہنائی بج رہی تھی شاید پھر کہیں کوئی بارات اتری تھی۔ ۔۔۔۔ وہ کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی اور دیر تک دیکھتی رہی تاحدّ نظر بکھرے ہوئے نیلگوں آسمان کو، سر سبز د رختوں کو۔۔۔۔۔۔ فطرت یقیناًبہت خوبصورت ہے اس نے شدّت سے محسوس کیا۔
چند ہی لمحوں میں اس نے دیکھاآسمانوں میں شفق پھول رہی تھی۔ ۔۔۔۔ چڑیوں کا ایک جھنڈ بسیرا لینے جارہا تھا۔۔۔۔ پرواز ۔۔۔طیور کی پرواز ۔۔۔ اُسے اداسی نے آن گھیرا۔۔۔۔پھر جب دھندلکے چھانے لگے تو وہ آکر بستر پر بیٹھ گئی۔ اس کی نگاہکی گہرائی میں اضافہ ہوگیا، ماتھے پر فکر کی لکیریں نمودار ہوئیں۔ ۔۔۔ غور وفکر اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اُسے یاد آئے قرآن کریم کے یہ الفاظ ’’ اَفلا یتدبَّرون بہا‘‘ (کیاوہ(لوگ) اس پر غورو فکر نہیں کرتے۔)اس کی نظراپنی الماری کی کتابوں پر جا ٹکی۔۔۔۔۔ترجمان القرآن، عبداﷲ یوسف علی کاترجمۂ قرآن بہ زبانِ انگریزی۔ ان کے علاوہ مختلف فنکاروں کی تصانیف۔میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، ٹیگوؔ ر، خلیل جبرانؔ ، شیکسپئرؔ ، رومیؔ ،۔۔۔ روحانی مسّرت ، ذہنی سکون کا ذریعہ۔۔۔۔ بہترین ساتھی۔۔۔ تو پھر یہ بے سکونی کیوں۔۔۔۔ ؟ خالی پن کا یہ احساس کیوں۔۔۔۔عجیب سی حُزن آمیز تنہائی۔۔۔۔۔
دراصل ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمہاری دنیا فقط ز یوروں ، جھلملاتے ہوئے زرق برق ملبوسات تک محدود ہوتی، تب تو یقیناًتم بہت خوش رہتیں۔ اس نے خود کو مخاطب کیا۔ اس کی کم نصیبی تھی کہ وہ خود آگاہ تھی۔ وہ سوچتی تھی….. کہ اسے اپنے ہونے کا یقین تھا۔ دل میں تنہائیوں کا شدید احساس لئے، اداسی کے گھنے سایوں تلے، دھندلے دھندلے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتی ، بے چین روح۔۔۔۔۔ خوابوں کی خوبصورت لیکن بے رحم دنیا کی مسافر۔۔۔۔۔
’’ میں اندر آ سکتا ہوں؟ یہ اسکے خالہ زاد بھائی کلیم کی آواز تھی۔ بغیر اجازت ملے وہ حضرت اند ر تشریف لاچکے تھے۔ بے حد توانا جسم، گورا چٹا رنگ، ململ کا کرتہ ، چھوٹے پائنچہ کا پاجامہ ،سر پر چکن کی دو پلّی ٹوپی۔ اس کا خالہ زاد بھائی کلیم۔‘‘
دل پر جبر کرکے، کافی بے تعلّقی سے اس نے سوال کیا’’ کیسے آنا ہوا کلیم بھائی۔‘‘؟’’ بس ویسے ہی آگیا۔ سوچا تم سے پڑھنے کے لیے کوئی ’بک‘ ہی لے آؤں۔‘‘ وہ بڑے انداز سے مسکرایا۔ وہی مسکراہٹ جس سے اسے ہمیشہ الجھن ہواکرتی تھی۔
’’سلمہ اور رحیمہ ٹھیک ہیں؟‘‘ بات کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں اخلاقاً دوسرا سوال کیا گیا۔’’ وہ ۔۔۔۔؟ بہت اچھی ہیں۔ ۔۔۔اکیلی ہیں اس لیے ذرا گھبراتی ہیں۔ ابّا بھی گھر پر نہیں ہیں آجکل۔ ہاں تو مجھے کوئی بُک دے دو میرے شوق کی۔‘‘
’’ آپ کے شوق کی تو کوئی کتاب میرے پاس نہیں ۔۔۔۔۔ ’اداس نسلیں‘ لے جایئے‘‘ بے دلی سے اس نے شیلف سے ناول نکالی اور اسے اپنے اس خالہ زاد

بھائی کی طرف بڑھا دیا جس نے اس کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد واپس کردیا۔
’’ یہ بوگس، بکُس مجھے بالکل اچھی نہیں لگتیں۔ انگلش کی کوئی بُک دے دو۔ آج کل تو بس انگلش ’امپروو‘ کرنے پر جی جان سے جٹا ہواہوں۔‘‘ یہ جملہ ادا کرکے وہ ایک بے تکی سی ہنسی ہنسا جس کی اس وقت کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔
’’ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔۔ وہ دوبارہ وہی ہنسی ہنسا۔ واﷲ میں نے تو مذاق میں کہا تھا۔ ایسی بُک میرا مطلب ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے لوگ پڑھتے ہیں اور میں کچھ ایسا زیادہ پڑھا وڑھا نہیں ہوں‘‘۔
’’ آپ کو فالتو کامذاق کرنے کا اختیار کس نے دیا‘‘ وہ جھنجھلا گئی۔
’’ اچھا تو اب میں چلا‘‘۔وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔’’ خدا حاف٭۔۔۔۔ذرا خالہ جان سے ملتا چلوں۔‘‘
کلیم کے جانے کے بعد وہ ساکت کھڑی رہی پھر نڈھال سی، بے جان سی مسہری پر لیٹ گئی۔شاہینہ بیگم یہ ہے تمہارا آئڈیل، ہونے والا رفیقِ زندگی۔ زندگی کی دشوار گذار، طویل یا مختصر راہگذر پر تم کو اس کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ کیوں آخرِ امّی مجھے اس شخص کے پلّے باندھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔ میری مرضی ، میری رضامندی اتنی غیر اہم کیوں سمجھی جارہی ہے؟لیکن امی کے آگے کس کی چل سکتی ہے۔
’’بٹیا۔۔۔۔‘‘گھرکی پرانی ملازمہ رحمت دروازے میں کھڑی تھی۔’’ بی بی بلاوت ہیں‘‘ رحمت نے اپنے بھیگے ہاتھ دوپٹہ کے آنچل سے پونچھتے ہوئے کہا۔ پرانے نمک خواروں والی خصوصیات سے مزیّن رحمت بوا اس کی بڑی ہمدرد تھیں۔
’’ کہنا ابھی آرہی ہیں۔‘‘ اُسے اپنی آواز خودہی ٹھیک سے سنائی نہ دی۔ رحمت بوا کے جانے کے بعد آہستہ اور بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی و ہ اپنی ماں کے کمرے میں پہنچی۔اس کے علم نے ماں کی عظمت کا احساس اُسے بہ خوبی دلایا تھا۔
’’ آپ نے مجھے یاد کیا امّی‘‘؟
’’ کیا کررہی تھیں بیٹی۔۔۔۔۔ بڑا دل گھبرارہا تھا اس وقت ، اختلاج کی سی

کیفیت ہے۔اے ہاں کلیم ابھی کہہ گیا ہے کہ وہ سلمہ اور رحیمہ کو لائے گا بہت گھبرارہی ہیں دونوں۔ باپ بھی نہیں ہیں آجکل، کلیم بھی اپنے کاموں میں لگا رہتا ہے۔ میں نے کہہ دیا لے آنا۔ اے ہاں کون سی قیامت ہے۔ ذرا تم بھی بہل جاؤگی۔ کیا روئی ہو بیٹی؟‘‘ اکلوتی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی تھیں وہ بے چین سی ہوگئیں۔
’’ نہیں تو۔۔۔۔ کچھ نزلہ کی کیفیت ہے‘‘ اُس نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ’’ تو نزلہ کی ٹکیہ کھالی ہوتی‘‘
’’ آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ وہ مطمئن ہوگئیں۔
’’ کلیم ماشے اﷲ بڑا ہنس مکھ ہے۔ اپنا دُکھ مجال ہے جو ظاہر ہونے دے‘‘ پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں۔
’’ مرحومہ آپاجان کی نشانی ۔ کہہ رہا تھا کہ بس آپ لوگوں کا سہارا ہے ۔ ترس آتا ہے غریب پر۔‘‘ پھر ذرا رک کر بولیں۔
’’ کیا سوچ رہی ہو بیٹی۔۔۔۔۔۔ پھر وہی نگوڑی سوچ‘‘
’’ کچھ بھی تو نہیں امّی۔‘‘ وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔‘‘ ابوا بھی تک نہیں آئے‘‘
’’ اے ہاں اب تک تو انہیں آجانا چاہیے تھا۔ ہوسکتا ہے کوئی ضروری کام نکل آیا ہو۔‘‘ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی رحمت بوا نے دروازہ کھولا۔ جس شخص کا انتظار ہورہا تھا وہ اندر داخل ہوا ہاتھ میں بیگ لیے جسے رحمت بوا نے تھام لیا تھا۔احمد حسین خاں انھوں نے اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔ نہ جانے بیگم کیسی ہونگی۔ ان کو دیکھ کر ماں بیٹی کے چہروں پر خوشی کی لہردوڑگئی۔
’’ بیگم طبعیت کیسی ہے؟‘‘
’’پرسوں ذراطبیعت بگڑ گئی تھی لیکن پھر بفضلہ ٹھیک ہو گئی ۔‘‘ وہ کھنکھارتی ہوئی بولیں۔ آواز میں کمزوری اور ارتعاش تھا۔
’’ شکر ہے۔ ویسے علاج تو برابر ہوہی رہا ہے۔ خدانے چاہا جلد ہی آپ کو صحت ہوگی۔‘‘ احمد صاحب نے تشفی آمیز لہجہ میں کہا۔
’’ ابو میری کتابیں‘‘ اس سے صبر نہ ہوسکا۔’ہاں تمہاری کتابیں لایا ہوں بھئی،رسالے بھی لایا ہوں‘‘۔ کھانے کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور وہ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی کتابوں کا بنڈل ہاتھ میں لئے۔
’’ بیگم میری ایک بات مانوگی‘‘۔
’’ ای ماننے والی ہوئی تو کیوں نہیں مانونگی‘‘
والدین کا کمرہ اس کے کمرے کے عقب میں ہی تھا۔ ان کی گفتگو مدہّم سر گوشی کی طرح اُس تک آئی۔
’’ نہیں بیگم امکان ہے کہ میری اُس بات سے تم بھڑک جاؤگی جو میں نہیں چاہتا۔ وعدہ کرو میری بات پر ٹھنڈے دل سے غو ر کروگی۔‘‘ابو کی آواز تھی ۔
’’ ای اگر ماننے والی ہوئی تو کیا میں پاگل ہوں جو نہ مانونگی۔ اور بلاوجہ بھڑک جاؤنگی۔ آپ کہیے تو۔‘‘ امی کی آواز تھی۔
’’ تو پھر سنو۔۔۔۔۔’’ احمد صاحب پھر ہچکچائے۔
’’ بیگم! شاہینہ کے لیے الہٰ آباد میں میں ایک بہت اچھا لڑکا دیکھ کر آیاہوں بس جیسا وہ پسند کرسکتی ہے۔‘‘
’’ ای کچھ ہوش میں ہیں آپ لڑکی بچپن میں ہی کلیم کو منگ گئی تھی۔ آپ کو یاد نہیں‘‘؟ نعیمہ بیگم کی آواز میں غصّہ تھا اور ارتعاش بھی۔
’’منگنی توڑی بھی جاسکتی ہے۔ یہ لڑکا کلیم سے لاکھ درجہ بہتر ہے، تعلیم یافتہ، مہذب، خوش اخلاق، باکردار۔ شاہینہ کو بہت پسند آئے گا‘‘ اس کے ابو کی آواز میں التجا کی آمیزش تھی۔ وہ سارے خواب جو وہ دیکھتی رہی تھی اسکی نگاہوں میں در آئے۔ذہن میں انجانی، اَن دیکھی تصویر ابھری، موہوم سا اک پیکر۔۔۔۔ ایسی ہستی کا تصور جو اس کا ذہنی ساتھی ہوگا اسے سمجھنے ، قدر کرنے والا۔۔۔۔ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا ہم سفر۔۔۔ پھر آواز آئی۔
’’ویسے آپ کا جو جی میں آئے کیجیے میں عورت ہوں میرا کیا اختیار۔ لیکن اتنا کہے دیتی ہوں کہ اگر میری مرحوم بہن کے بیٹے سے میری بچّی کی شادی نہ ہوئی تو میرا

دل ٹوٹ جائے گا۔ اﷲ بخشے مرتے وقت شاہینہ کا ہاتھ کلیم کے ہاتھ میں ۔۔۔۔۔۔ دے گئی تھیں اور ان کے آخری الفاظ تھے:
’’ نعیمہ! شاہینہ کی شادی میرے ہی بچے سے ہوگی۔ لللّٰہ میرے اس کام میں دخل نہ دیجیے۔‘‘ ان کی آواز روندھ گئی اسکا ارتعاش بڑھ گیا۔ ’’ شاہینہ کلیم کے ساتھ زندگی بھر خوش رہے گی۔ گھر کا لڑکا ہے، دیکھا بھالاہے اتنا ہنس مکھ کہ بات بات پے ہنس دیتا ہے۔۔۔۔۔ اتنا سیدھا کہ آپ سے آپ محبت آئے‘‘۔
’’—— لیکن بیگم اس کے لچھّن مجھے قطعاً پسند نہیں‘‘ ابّو کی آوازمدھّم

جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں