وہ قاتل جس کو موت دینے کیلئے کرنٹ لگانے کی وجہ سے مرنے سے پہلے ہی اس کا گوشت اس قدر جلنے لگا کہ لوگوں کا کھڑا رہنا مشکل ہوگیا، حکام کی ہی رحم کی اپیل لیکن پھر فیصلہ کیا سنایا گیا؟

وہ قاتل جس کو موت دینے کیلئے کرنٹ لگانے کی وجہ سے مرنے سے پہلے ہی اس کا گوشت اس قدر جلنے لگا کہ لوگوں کا کھڑا رہنا مشکل ہوگیا، حکام کی ہی رحم کی اپیل لیکن پھر فیصلہ کیا سنایا گیا؟

 امریکی ریاست الباما میں 80کی دہائی میں جب کئی سال کے وقفے کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد دوبارہ شروع ہواتو سزائے موت پانے والا پہلا مجرم جان لوئس ایونز سوئم تھا اور اس کی سزا ایسی ہولناک واقع ہوئی تھی کہ موقع پر موجود حکام نے اس کی اذیت دیکھتے ہوئے ریاست کے گورنر کو فون کر دیا کہ اس پر رحم کیا جائے مگر گورنر نے رحم کی یہ اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔

ڈیلی سٹار کے مطابق جان لوئس نے دسمبر 1976سے 1977ءکے دوران سات مختلف ریاستوں میں درجنوں ڈکیتیاں کیں، 9لوگوں کو اغواءکیا اور قتل سمیت دیگر کئی جرائم میں ملوث رہا۔جان لوئس کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے دوران ڈکیتی الباما میں ایک دکان دار ایڈورڈ نسر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اور حیران کن طور پر اس نے جیوری کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اسے سزائے موت نہ دی تو وہ جیوری کے تمام اراکین کو قتل کر دے گا۔ اس نے عدالت میں کہا کہ اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور اگر رہا ہو جاتا ہے اور ایسی ہی صورتحال آتی ہے تو وہ دوبارہ بھی قتل کر نے سے گریز نہیں کرے گا۔

جان لوئس کے اس بیان کے بعد جیوری نے چند منٹ کے لیے غوروخوض کیا اور پھر اسے سزائے موت سنا دی۔

رپورٹ کے مطابق اپریل 1983ءمیں 33سالہ جان لوئس کو الیکٹرک چیئر کے ذریعے کرنٹ لگا کر اس کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔ پہلی بار 1900وولٹ کرنٹ 30سیکنڈ تک کے لیے اس کے جسم سے گزارا گیا، جس سے اس کا جسم جھلس گیا اور گوشت جلنے لگا۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جان لوئس ابھی زندہ ہے کیونکہ اس کا دل تاحال دھڑک رہا تھا۔ چند منٹ کے وقفے سے ایک بار پھر 30سیکنڈ کے لیے اسے کرنٹ لگایا گیا، تاہم پھر اس کا جسم مزید جل گیااور اس سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا مگر ڈاکٹروں نے اب کی بار بھی اسے زندہ قرار دے دیا۔

جان لوئس کے اس بیان کے بعد جیوری نے چند منٹ کے لیے غوروخوض کیا اور پھر اسے سزائے موت سنا دی۔

رپورٹ کے مطابق اپریل 1983ءمیں 33سالہ جان لوئس کو الیکٹرک چیئر کے ذریعے کرنٹ لگا کر اس کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔ پہلی بار 1900وولٹ کرنٹ 30سیکنڈ تک کے لیے اس کے جسم سے گزارا گیا، جس سے اس کا جسم جھلس گیا اور گوشت جلنے لگا۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جان لوئس ابھی زندہ ہے کیونکہ اس کا دل تاحال دھڑک رہا تھا۔ چند منٹ کے وقفے سے ایک بار پھر 30سیکنڈ کے لیے اسے کرنٹ لگایا گیا، تاہم پھر اس کا جسم مزید جل گیااور اس سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا مگر ڈاکٹروں نے اب کی بار بھی اسے زندہ قرار دے دیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں