وہ آشنائیاں کیا کیا سردار یعقوب

وہ آشنائیاں کیا کیا سردار یعقوب

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
آج بھانجے عابد مختار گجر ماجد مختار گجر کے ساتھ پشاور سی ایم ہائوس گیا تھا۔برادر فضل الہی ایم پی اے نے پزیرائی کی اور مجھے بھی اندر بلا لیا۔
کافی عرصہ پہلے شائد جبری میں عظیم شخص ماسٹر تاج کے جنازے میں ملاقات ہوئی تھی۔آج جب چیف منسٹر ہائوس کے ہال میں داخل ہوا تو ان پر نظر پڑی سیاسی ترجیحات اپنی جگہ لیکن سچ پوچھیں بھانجے عابد سے کہا کہ سردار صاحب سے تھاپڑا لے۔دونوں ہی صوبائی اور قومی کی سیٹ کے لئے کوشاں ہیں ان کے انٹرویو جاری تھے۔میں اس عظیم شخص کا سر تا پا شکر گزار ہوں۔ویسے وہ میرے مرحوم دلیر بھائی مختار گجر کے ڈسٹرکٹ کونسل کے ساتھی رہے تھے جب ایبٹ آباد کا حصہ ہری پور تھا اس ہال میں بہت سے دوست بھی تھے سردار شیر بہادر علی اصغر خان اور کافی ۔یہ اس پسے ہوئے ہزارہ کی انصافی قیادت ہے جسے ابھی بہت کچھ سہنا ہے خصوصا فاٹا کے انضمام کے بعد ان لوگوں پر بڑی ذمی داری آنے والی ہے ۔سردار یعقوب خان حلیم الطبع پرانی روایات کے امین کڑلال ہیں۔جب ڈپٹی سپیکر تھے تو ہمارے دوست ظفر بیگ جو سیاسی کم مگر سیاسی لوگوں سے میل ملاقات رکھنے میں کمال کا درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں ہزارہ کا کوئی سیاست دان ہو گا جو ظفر سے شناسائی نہ رکھتا ہو انہی کی وساطت سے سردار یعقوب سے ملاقات ہوئی ۔ایک روز ظفر بیگ کے کام کے سلسلے میں ان کے چیمبر پہنچے۔کوئی لین دین کا معاملہ تھا حنیف عباسی کو چیمبر میں بلایا باتوں میں تلخی ہو گئی حنیف عباسی بادشاہ لوگ ہیں رکھ رکھائو سے نا آشناٗ انہوں نے کوئی سخت بات کہہ دی کہنے لگے یہ صاحب یہاں سے اٹھیں گے تو بات آگے بڑے گی مجھے علم تھا صاحب مطلوبہ رقم دینے سے جان چھڑا رہے ہیں ۔سردار صاحب سے میرے بھارے میں گویا ہوئے انہیں اٹھائیں۔میں بھی پریشان ہو گیا کہ جناب ڈپٹی سپیکر کیا فرماتے ہیں آپ اندازہ لگائیں ایک رکن اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر میں دم بخود ظفر پریشان عباسی اپنی جلی ہوئی چھوٹی سی گردن پر اڑھائی ٹن کا بوتھا سجائے دیکھ رہے تھے۔سرادر صاحب گویا ہوئے حنیف صاحب چودھری صاحب ہمارے علاقے کے عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں معاف کرنا میں انہیں جانے کا نہیں کہہ سکتا آپ کی مرضی ہے اسی دروازے سے چلے جائیں جہاں سے آئے ہیں۔یہ لفظوں کا قرض صدیوں جائے گا۔اس روز پارٹی لیڈر کی حیثیت سے جب سردار واجد نے مجھے ایک گروپ میں ایک مہمان کی حیثیت سے بلایا تو کسی نے پوچھا کہ سردار ادریس اور کرنل شبیر میں آپ کی ترجیح کیا ہو گی میں نے کہا سردار شبیر۔سچ پوچھیں میں صرف اتنا جانتا تھا کہ کرنل صاحب سردار یعقوب کے بیٹے ہیں۔اور مجھے یہ بھی علم تھا کہ پوت اور گھوڑا باپ پے بہتا نہیں تو تھوڑا ضرور ہوتا ہے اور وہی ہوا سردار ادریس پارٹی کا عتماد کھو بیٹھے۔
ان سے ملنا عہد رفتہ کی خوشبو کو گلے لگانا ہے مجھے ان کی دوستی کے وہ دن بھی یاد آئے جب ۲۰۰۲ میں ہم با باجی کے گھر گئے جب وہ الیکشن جیتے تھے با با حیدر زمان بھی ایک تاریخ ہے۔افسوس یہ ہے کہ بڑے لوگ اپنے ساتھ لکھاری نہیں رکھتے خود ڈائری نہیں لکھتے تاریخ ان کے ساتھ دفن ہو جاتی ہے۔میں کوئی بڑا نہیں ہوں لیکن ایک بڑا کام یہ ضرور کرتا ہوں کہ لکھتا ہوں وہاں ایک ہمہ وقت متبسم شخص راجہ منیب بھی ملے میں نے سرادرا صاحب سے کہا شیر بہادر یار آپ تو آپس میں ایڈجیسٹمنٹ کرو،بحر حال یہ سیاست ہے یہاں ایک دوسرے کو دھکا دینا ایک رواج سا ہے۔ہمارے ہزارے وال اگر اکٹھے آج نہیں تو انہیں کل ضرور ہونا ہو گا۔فاٹا کے انضمام کے بھنگڑے ڈالے جا رہے ہی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب ہم مزید دبنے والے ہیں۔ہمیں مزید رگڑا لگنے ولا ہے۔سوچ لیجئے ان کی خوشیاں مبارک مگر یہ نہ ہو ہمارے اپنے ہزارے کے ساتھ کوئی زیادتی ہو۔یہ بزرگ سردار یعقوب اور قدرے جواں ہمت سردار شیر بہادر زر گل خان راجہ مبین عبدالرحمن عباسی کا کام ہے کہ وہ ہزارہ کا سوچیں گرچپ آمنہ

اپنا تبصرہ لکھیں