وہی زخم پھر سے ابھرنے لگے ہیں

 
کلیجے میں نشتر اُترنے لگے ہیںچھپائے تھے ہم نے جو پلکوں میں موتی 
وہی ٹوٹ کر اب بکھرنے لگے ہیں

اندھیروں سے سینہ سپر تھے جو کل تک
وہ اپنے ہی سائے سے ڈرنے لگے ہیں

اثر ہے مرے خونِ دل کا یہ شاید 
کہ اشعار اتنے نکھرنے لگے ہیں 

جو بھرتے تھے دم دوستی کا ہمیشہ 
وہ منہ پھیر کر اب گزرنے لگے ہیں 

اُداسی کی سوغات دے کر ہمیں وہ 
جدائی کا سامان کرنے لگے ہیں

تمہیں کیا ضرورت ہے کاجل کی موناؔ 
کہ آنکھوں میں غم رنگ بھرنے لگے ہیں 

 
Elizabeth Kurian ‘Mona’
Hyderabad, India
اپنا تبصرہ لکھیں