وقت وہی ہے مگر افسوس، وہ چائے نہیں ہے

دیار غیر میں چائے کی جگہ جوشاندہ پینے والوں کے لیے ایک گرما گرم تحریر
pakistani tea
قلع احمد نگر
17 دسمبر 1942
صِدیقِ مکرم
وقت وہی ہے مگر افسوس، وہ چائے نہیں ہے جو طبعِ شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمان صہبا مرے آگے
وہ چینی چائے جس کا عادی تھا، کئی دن ہوئے ختم ہو گئی، اور احمد نگر اور پونا کے بازاروں میں کوئی اس جنسِ گرانمایہ سے آشنا نہیں
یک نال مستانہ ز جائے نہ شنیدیم
ویراں شود آں شہر کہ مے خانہ نہ دارد
مجبورا ہندوستان کی اسی سیاہ پتی کا جوشاندہ پی رہا ہوں جسے تعبیر و تسمیہ کے اس قاعدے کے بموجب کہ:
برعکس نہند نام زنگی کافور
لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں، اور دودھ میں ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں:
در ماند صلاح و فسادیم، الحذر
زیں رسم ہا کہ مردمِ عاقل نہادہ اند
اس کارگاہِ سودو زیاں میں کوئی عشرت نہیں کہ کسی حسرت سے پیوستہ نہ ہو۔ یہاں زلال صافی کا کوئی جام نہیں بھرا گیا کہ دردِ کدورت اپنی تہہ میں نہ رکھتا ہو۔ باد کامرانی کے تعاقب میں ہمیشہ خمارِ ناکامی لگا رہا، اور خند بہار کے پیچھے ہمیشہ گری خزاں کا شیون برپا ہوا۔ ابوالفضل کیا خوب کہہ گیا ہے۔ قدحے پر نہ شد کہ تہی نہ کردند، د صفحہ تمام نہ شد کہ ورق برنہ گردید:
نیکو نہ بود ہیچ مرا دے بہ کمال
چوں صفحہ تمام شد ورق بر گردد
امید ہے، کہ آپ کی “عنبرین چائے” کا ذخیرہ جس کا ایک مرتبہ رمضان میں آپ نے ذکر کیا تھا، اس نایابی کی گزند سے محفوظ ہوگا:
امید کہ چوں بندہ تنک مایہ نہ باشی
مے خوردن ہر روزہ زعاداتِ کرام است
معلوم نہیں، کبھی اس مسئلہ کے دقائق و معارف پر بھی آپ کی توجہ مبذول ہوئی ہے یا نہیں؟ اپنی حالت کیا بیان کروں؟ واقعہ یہ ہے کہ وقت کے بہت سے مسائل کی طرح اس معاملہ میں بھی طبیعت کبھی سوادِ اعظم کے مسلک سے متفق نہ ہو سکی۔ زمانے کی بے راہ رویوں کا ہمیشہ ماتم گسار رہنا پڑا:
ازاں کہ پیرویے خلق گمرہی آرد
نہ می رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ ست
چائے کے باب میں ابناِ زمانہ سے میرا اختلاف صرف شاخوں اور پتوں کے معاملہ ہی میں نہیں ہوا کہ مفاہمت کی صورت نکل سکتی بلکہ سرے سے جڑ میں ہوا یعنی اختلاف فرع کا نہیں، اصل الاصول کا ہے:
دہن کا ذکر کیا، یاں سر ہی غائب ہے گریباں سے
سب سے پہلا سوال چائے کے بارے میں خود چائے کا پیدا ہوتا ہے۔ میں چائے کو چائے کے لیے پیتا ہوں، لوگ شکر اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔ میرے لیے وہ مقاصد میں داخل ہوئی، ان کے لیے وسائل میں۔ غور فرمائیے۔ میرا رخ کس طرف ہے اور زمانہ کدھر جا رہا ہے؟
تو و طوبے و ماو قامتِ یار
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں چین سیبراہ راست گئی مثلا روس، ترکستان، ایران۔ وہاں کبھی بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہی کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعتِ سیئہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ بنیاد ظلم در جہاں اندک بود۔ ہر کہ آمد براں مزید کرد۔ اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار پھیلا دیے ہیں، انہیں کون چھانٹ سکتا ہے؟ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں۔ کھانے کی جگہ پیتے ہیں، اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے کہ:
ہائے کمبخت، تو نے پی ہی نہیں
پھر ایک بنیادی سوال چائے کی نوعیت کا بھی ہے، اور اس بارے میں ایک عجیب عالمگیر غلط فہمی پھیل گئی ہے۔ کس کس سے جھگڑیے اور کس کس کو سمجھائیے
روز و شب عربدہ با خلقِ خدا نہ تواں کرد
عام طور پر لوگ ایک خاص طرح کی پتی کو جو ہندوستان اور سیلون میں پیدا ہوتی ہے، سمجھتے ہیں چائے ہے، اور پھر اس کی مختلف قسمیں کر کے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں اور اس ترجیح کے بارے میں باہم رد و کد کرتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے سیلون کی چائے بہتر ہے۔ دوسرا کہتا ہے، دارجلنگ کی بہتر ہے، گویا یہ بھی وہ معاملہ ہوا کہ:
در رہِ عشق نہ شد کس بہ یقیں محرم راز
ہر کے بر حسبِ فہم گمانے دارد
حالانکہ ان فریب خوردگانِ رنگ و بو کو کون سمجھائے کہ جس چیز پر جھگڑ رہے ہیں، وہ سرے سے چائے ہے ہی نہیں:
چوں نہ دید مذ حقیقت رہِ افسانہ زوند
دراصل یہ عالمگیر غلطی اس طرح ہوئی کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جب چائے کی مانگ ہر طرف بڑھ رہی تھی ہندوستان کے بعض انگریز کاشتکاروں کو خیال ہوا کہ سیلون اور ہندوستان کے بلند اور مرطوب مقامات میں چائے کی کاشت کا تجربہ کریں۔ انہوں نے چین سے چائے کے پودے منگوائے اور یہاں کاشت شروع کی۔ یہاں کی مٹی نے چائے پیدا کرنے سے تو انکار کر دیا مگر تقریبا اسی شکل و صورت کی ایک دوسری چیز پیدا کر دی۔ ان زیاں کاروں نے اسی کا نام چائے رکھ دیا، اور اس غرض سے کہ اصلی چائے سے ممتاز رہے، اسے کالی چائے کے نام سے پکارنے لگے:
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں
دنیا جو اس جستجو میں تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ جنس کمیاب ارزاں ہو، بے سوچے بوجھے اسی پر ٹوٹ پڑی اور پھر تو گویا پوری نوعِ انسانی نے اس فریب خوردگی پر اجماع کر لیا۔ اب آپ ہزار سر پیٹیے، سنتا کون ہے:
اسی کی سی کہنے لگے اہلِ حشر کہیں پرسشِ داد خواہاں نہیں
معاملہ کا سب سے زیادہ درد انگیز پہلو یہ ہے کہ خود چین کے بعض ساحلی باشندے بھی اس عالمگیر فریب کی لپیٹ میں آ گئے اور اسی پتی کو چائے سمجھ کر پینے لگے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ بدخشانیوں نے لال پتھر کو لعل سمجھا، اور کشمیریوں نے رنگی ہوئی گھانس کو زعفران سمجھ کر اپنی دستاریں رنگنی شروع کر دیں:
چو کفر از کعبہ بر خیز، کجا ماند مسلمانی!
نوعِ انسانی کی اکثریت کے فیصلوں کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا ہے۔ جمعیت بشری کی یہ فطرت ہے کہ ہمیشہ عقلمند آدمی اکا دکا ہوگا۔ بھِیڑ بے وقوفوں ہی کی رہے گی۔ ماننے پر آئیں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے۔ انکار پر آئیں گے تو مسیح کو سولی پر چڑھا دیں گے۔ حکیم سنائی زندگی بھر ماتم کرتا رہا:
گا را دارند باور در خدائی عامیاں
نو رح باورند ارند از پئے پیغمبری
اسی لیے عرفا طریق کو کہنا پڑا:
انکاریے خلق باش، تصدیق انیست مشغول بہ خویش باش توفیق انیست
تبعیتِ خلق باش از حقت باطل کرد ترکِ تقلید گیر، تحقیق انیست
یہ تو اصول کی بحث ہوئی۔ اب فروع میں آئیے۔ یہاں بھی کوئی گوشہ نہیں جہاں زمین ہموار ملے۔ سب سے اہم مسئلہ شکر کا ہے۔ مقدار کے لحاظ سے بھی اور نوعیت کے لحاظ سے بھی:
دردا کہ طبیب صبر می فرماید دیں نفسِ حریص را شکر می باید
جہاں تک مقدار کا تعلق ہے، اسے میری محرومی سمجھیے یا تلخ کامی، کہ مجھے مٹھاس کے ذوق کا بہت کم حصہ ملا ہے۔ نہ صرف چائے میں بلکہ کسی چیز میں بھی زیادہ مٹھاس گوارا نہیں کر سکتا۔ دنیا کے لیے جو چیز مٹھاس ہوئی، وہی میرے لیے بدمزگی ہو گئی۔ کھاتا ہوں تو منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو جو لذت مٹھاس ملتی ہے، مجھے نمک میں ملتی ہے۔ کھانے میں نمک پڑا ہو مگر میں اوپر سے اور چھڑک دوں گا۔ میں صباحت کا نہیں ملاحت کا قتیل ہوں:
و للناس فی ما یعشقون مذاھب
گویا کہہ سکتا ہوں کہ “اخی یوسف اصبح و انا املح منہ” کے مقام کا لذت شناس ہوں۔
گرنکتہ دانِ عشقی، خوش بشنوایں حکایت
اس حدیث کے تذکرہ نے یارانِ قصص و مواعظ کی وہ خانہ ساز روایت یاد دلا دی کہ “الایمان حلو و الممن یحب الحلوی” (یعنی ایمان مٹھاس ہے اور جو مومن ہے وہ مٹھاس کو محبوب رکھے گا) لیکن اگر مدارج ایمانی کے حصول اور مراتبِ ایقانی کی تکمیل کا یہی معیار ٹھہرا، تو نہیں معلوم اِن تہی دستانِ نقدِ حلاوت کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ جن کی محبتِ حلاوت کی ساری پونجی چائے کی چند پیالیوں سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں بھی کم شکر پڑی ہوئی، اور پھر اس کم شکر پر بھی تاسف کہ نہ ہوتی تو بہتر تھا۔ مولانا شبلی مرحوم کا بہترین شعر یاد آ گیا:
دو دل بودن دریں رہِ سخت تر عیبے ست سالک را
خجل ہستم ز کفرِ خود کہ دارد بوئے ایماں ہم
بچوں کا مٹھاس کا شوق ضرب المثل ہے، مگر آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ میں بچپنے میں بھی مٹھاس کا شائق نہ تھا۔ میرے ساتھی مجھے چھیڑا کرتے تھے کہ تجھے نیم کی پتیاں چبانی چاہئیں، اور ایک مرتبہ پسی ہوئی پتیاں کھلا بھی دی تھیں۔
اسی باعث سیدایہ طفل کو افیون دیتی ہے
کہ تا ہو جائے لذت آشنا تلخیِ دوراں سے
میں نے یہ دیکھ کر کہ مٹھاس کا شائق نہ ہونا نقص سمجھا جاتا ہے، کئی بار بہ تکلف کوشش کی کہ اپنے آپ کو شائق بناں، مگر ہر مرتبہ ناکام رہا۔ گویا وہی چندر بھان والی بات ہوئی کہ:
مرا دلے ست بہ کفر آشنا، کہ چندیں بار
بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم
بہرحال یہ تو شکر کی مقدار کا مسئلہ تھا، مگر معاملہ اس پر ختم کہا ہوتا ہے؟
کوتہ نظر ببیں کہ سخت مختصر گرفت
ایک دقیق سوال اس نوعیت کا بھی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جو شکر ہر چیز میں ڈالی جا سکتی ہے، وہی چائے میں بھی ڈالنی چاہیے۔ اس کے لیے کسی خاص شکر کا اہتمام ضروری نہیں۔ چنانچہ باریک دانوں کی دوبارہ شکر جو پہلے جاوا اور ماریشس سے آتی تھی اور اب ہندوستان میں بننے لگی ہے، چائے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ حالانکہ چائے کا معاملہ دوسری چیزوں سے بالکل مختلف واقع ہوا ہے۔ اسے حلوے پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا مزاج اس قدر لطیف اور بے میل ہے کہ کوئی بھی چیز جو خود اسی کی طرح صاف اور لطیف نہ ہوگی فورا اسے مکدر کر دے گی۔ گویا چائے کا معاملہ بھی وہی ہوا کہ:
نسیمِ صبح چھو جائے، رنگ ہو میلا
یہ دوبارہ شکر اگرچہ صاف کیے ہوئے رس سے بنتی ہے مگر پوری طرح صاف نہیں ہوتی۔ اس غرض سے کہ مقدار کم نہ ہو جائے، صفائی کے آخری مراتب چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جونہی اسے چائے میں ڈالیے، معا اس کا ذائقہ متاثر اور لطافت آلودہ ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ اثر ہر حال میں پڑتا ہے، تاہم دودھ کے ساتھ پیجیے تو چنداں محسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ دودھ کے ذائقہ کی گرانی چائے کے ذائقہ پر غالب آ جاتی ہے۔ اور کام چل جاتا ہے، لیکن سادہ چائے پیجیے تو فورا بول اٹھے گی۔ اس کے لیے ایسی شکر چاہیے جو بلور کی طرح بے میل اور برف کی طرح شفاف ہو۔ ایسی شکر ڈلیوں کی شکل میں بھی آتی ہے اور بڑے دانوں کی شکل میں بھی۔ میں ہمیشہ بڑے دانوں کی شفاف شکر کام میں لاتا ہوں، اور اس سے وہ کام لیتا ہوں جو مرزا غالب گلاب سے لیا کرتے تھے:
آسودہ باد خاطر غالب کہ خوئے است
آمیختن بہ باد صافی گلاب را
میرے لیے شکر کی نوعیت کا یہ فرق ویسا ہی محسوس اور نمایاں ہوا، جیسا شربت پینے والوں کے لیے قند اور گڑ کا فرق ہوا۔ لیکن یہ عجیب مصیبت ہے کہ دوسروں کو کسی طرح بھی محسوس نہیں کر سکتا۔ جس کسی سے کہا، اس نے یا تو اسے مبالغہ پر محمول کیا، یا میرا وہم و تخیل سمجھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو میرے ہی منہ کا مزہ بگڑ گیا ہے یا دنیا میں کسی کے منہ کا مزہ درست نہیں۔ یہ نہ بھولئیے کہ بحث چائے کے تکلفات میں نہیں ہے۔ اس کی لطافت و کیفیت کے ذوق و احساس میں ہے۔ بہت سے لوگ چائے کے لیے صاف ڈلیاں اور موٹی شکر استعمال کرتے ہیں، اور یورپ میں تو زیادہ تو ڈلیوں ہی کا رواج ہے، مگر یہ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ چائے کے ذائقہ کے لیے یہ کوئی ضروری چیز ہوئی، بلکہ محض تکلف کے خیال سے کیونکہ اس طرح کی شکر نسبتا قیمتی ہوتی ہے۔ آپ انہیں معمولی شکر ڈال کر چائے دے دیجیے بے غل و غش پی جائیں گے اور ذائقہ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کریں گے۔
شکر کے معاملہ میں اگر کسی گروہ کو حقیقت آشنا پایا تو وہ ایرانی ہیں۔ اگرچہ چائے کی نوعیت کے بارے میں چنداں ذی حس نہیں مگر یہ نکتہ انہوں نے پا لیا ہے۔ عراق اور ایران میں عام طور پر یہ بات نظر آئی تھی کہ چائے کے لیے قند کی جستجو میں رہتے ہیں اور اسے معمولی شکر پر ترجیح دیتے تھے، کیونکہ قند صاف ہوتی ہے، اور وہی کام دیتی ہے جو موٹے دانوں کی شکر سے لیا جاتا ہے۔ کہہ نہیں سکتا کہ اب وہاں کیا حال ہے۔
اور اگر “تعرف الاشیا باضدادہا” کی بنا پر کہ چائے کے معاملہ میں سب سے زیادہ خیرہ مذاق گروہ کون ہوا؟ تو میں بلا تامل انگریزوں کا نام لوں گا یہ عجیب بات ہے کہ یورپ اور امریکہ میں چائے انگلستان کی راہ سے گئی اور دنیا میں اس کا عالمگیر رواج بھی بہت کچھ انگریزوں ہی کا منت پذیر ہے، تاہم یہ نزدیکان بے بصر حقیقت حال میں اتنے دور جا پڑے کہ چائے کی حقیقی لطافت و کیفیت کا ذوق انہیں چھو بھی نہیں گیا۔ جب اس راہ کے اماموں کا یہ حال ہے تو ان کے مقلدوں کا جو حال ہوگا معلوم ہے:
آشنا را حال این ست، وائے بر بیگانہ
انہوں نے چین سے چائے پینا تو سیکھ لیا مگر اور کچھ سیکھ نہ سکے۔ اول تو ہندوستان اور سیلون کی سیاہ پتی ان کے ذوق چائے نوشی کا منتہاِ کمال ہوا۔ پھر قیامت یہ ہے کہ اس میں بھی ٹھنڈا دودھ ڈال کر اسے یک قلم گندہ کر دیں گے۔ مزید ستم ظریفی دیکھیے کہ اس گندے مشروب کی معیار سنجیوں کے لیے ماہرینِ فن کی ایک پوری فوج موجود رہتی ہے۔ کوئی اِن زیاں کاروں سے پوچھے کہ اگر چائے نوشی سے مقصود انہی پتیوں کو گرم پانی میں ڈال کر پی لینا ہے تو اس کے لیے ماہرینِ فن کی دقیقہ سنجیوں کی کیا ضرورت ہے؟ جو پتی بھی پانی کو سیاہی مائل کر دے، اور ایک تیز بو پیدا ہو جائے، چائے ہے، اور اس میں ٹھنڈے دودھ کا ایک چمچہ ڈال کر کافی مقدار میں گندگی پیدا کر دی جا سکتی ہے۔ چائے کا ایک ماہرِ فن بھی اس سے زیادہ کیا خاک بتلائے گا؟
ہیں یہی کہنے کو وہ بھی، اور کیا کہنے کو ہیں؟
اگرچہ فرانس اور براعظم میں زیادہ تر رواج کافی کا ہوا، تاہم اعلی طبقہ کے لوگ چائے کا شوق بھی رکھتے ہیں، اور ان کا ذوق بہرحال انگریزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ وہ زیادہ تر چینی چائے پئیں گے، اور اگر سیاہ چائے پئیں گے بھی تو اکثر حالتوں میں بغیر دودھ کے یا لیموں کی ایک قاش کے ساتھ جو چائے کی لطافت کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ اور نکھار دیتی ہے۔ یہ لیموں کی ترکیب دراصل روس، ترکستان اور ایران سے چلی۔ سمرقند اور بخارا میں عام دستور ہے، کہ چائے کا تیسرا فنجان لیمونی ہوگا۔ بعض ایرانی بھی دور کا خاتمہ لیمونی ہی پر کرتے ہیں۔ یہ کمبخت دودھ کی آفت صرف انگریزوں کی لائی ہوئی ہے:
سر ایں فتنہ زجائیست کہ من می دانم
اب اِدھر اِک اور نئی مصیبت پیش آ گئی ہے۔ اب تک تو صرف شکر کی عام قسم ہی کے استعمال کا رونا تھا۔ لیکن اب معاملہ صاف صاف گڑ تک پہنچنے والا ہے۔ ہندوستان قدیم میں جب لوگوں نے گڑ کی منزل سے آگے قدم بڑھانا چاہا تھا تو یہ کیا تھا کہ گڑ کو کسی قدر صاف کر کے لال شکر بنانے لگے تھے۔ یہ صفائی میں سفید شکر سے منزلوں دور تھی مگر نا صاف گڑ سے ایک قدم آگے نکل آئی تھی۔ پھر جب سفید شکر عام طور پر بننے لگی تو اس کا استعمال زیادہ تر دیہاتوں میں محدود رہ گیا۔ لیکن اب پھر دنیا اپنی ترقیِ معکوس میں اسی طرف لوٹ رہی ہے جہاں سے سیکڑوں برس پہلے آگے بڑھی تھی۔ چنانچہ آج کل امریکہ میں اس لال شکر کی بڑی مانگ ہے۔ وہاں کے اہلِ ذوق کہتے ہیں کافی بغیر اس شکر کے مزہ نہیں دیتی، اور جیسا کہ قاعد مقررہ ہے، اب ان کی تقلید میں یہاں کے اصحابِ ذوق بھی “بران شوگر” کی صدائیں بلند کرنے لگے ہیں۔ میری یہ پیشین گوئی لکھ رکھیے کہ عنقریب یہ بران شکر کا ہلکا سا پردہ بھی اٹھ جائیگا اور صاف صاف گڑ کی مانگ ہر طرف شروع ہو جائے گی۔ یارانِ ذوقِ جدید کہیں گے گڑ کے ڈلے ڈالے بغیر نہ چائے مزہ دیتی ہے نہ کافی۔ فرمائیے، اب اس کے بعد باقی کیا رہ گیا ہے جس کا انتظار کیا جائے؟
وائے گر در پسِ امروز بود فردائے
شکر اور گڑ کی دنیائیں اس درجہ ایک دوسرے سے مختلف واقع ہوئی ہیں کہ آدمی ایک کا ہو کر پھر دوسرے کے قابل نہیں رہ سکتا۔میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے زندگی میں دو چار مرتبہ بھی گڑ کھا لیا، شکر کی لطافت کا احساس پھر ان میں باقی نہیں رہا۔ جواہر لال چونکہ مٹھاس کے بہت شائق ہیں، اس لیے گڑ کا بھی شوق رکھتے ہیں۔میں نے یہاں ہزار کوشش کی کہ شکر کی نوعیت کا یہ فرق جو میرے لیے اِس درجہ نمایاں ہے، انہیں بھی محسوس کراں، لیکن نہ کرا سکا اور بالآخر تھک کے رہ گیا۔
بہرحال زمانہ کی حقیقت فراموشیوں پر کہاں تک ماتم کیا جائے:
کو تہ نہ تواں کرد کہ ایں قصہ دراز است
آئیے، آپ کو کچھ اپنا حال سناں۔ اصحابِ نظر کا قول ہے کہ حسن اور فن کے معاملہ میں حب الوطنی کے جذبہ کو دخل نہیں دینا چاہیے۔
متاعِ نیک، ہر دکان کہ باشد
پر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں بھی چائے کے باب میں شاہدانِ ہند کا نہیں، خوبانِ چین کا معتقد ہوں:
دوائے دردِ دل خو ازاں مفرح جوئے کہ در صراحیِ چینی و شیشہ حلبی ست
میرے جغرافیہ میں اگر چین کا ذکر کیا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ جنرل چنگ کائی شک اور میڈم چنگ وہاں سے آئے تھے، بلکہ اس لیے کہ چائے وہیں سے آتی ہے:
مئے صافی ز فرنگ آید و شاہد ز تتار
ما نہ دانیم کہ بسطامے و بغدادے ہست
ایک مدت سے جس چینی چائے کا عادی ہوں، وہ وہائٹ جیسمین (White Jasmine) کہلاتی ہے۔ یعنی “یاسمین سفید” یا ٹھیٹ اردو میں یوں کہیے کہ “گوری چنبیلی”:
کسیکہ محرم راز صبا ست، مے داند
کہ باوجود خزاں، بوئے یاسمن باقی ست
اس کی خوشبو جس قدر لطیف ہے، اتنا ہی کیف تند و تیز ہے۔ رنگت کی نسبت کیا کہوں؟ لوگوں نے آتش سیال کی تعبیر سے کام لیا ہے:
مے میانِ شیش ساقی نگر
آتشے گویا بہ آب آلودہ اند
لیکن آگ کا تخیل پھر ارضی ہے اور اس چائے کی علویت کچھ اور چاہتی ہے۔ میں سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یوں سمجھیے، جیسے کسی نے سورج کی کرنیں حل کر کے بلوریں فنجان میں گھول دی ہیں، ملا محمد مازندرانی صاحبِ بت خانہ نے اگر یہ چائے پی ہوتی تو خانخاناں کی خانہ ساز شراب کی مدح میں ہر گز یہ نہ کہتا
نہ می ماند ایں بادہ اصلا بہ آب
تو گوئی کہ حل کردہ اند آفتاب
لڑائی کی وجہ سے جہازوں کی آمدورفت بند ہوئی تو اس کا اثر چائے پر بھی پڑا۔ میں کلکتہ کے جس چینی اسٹور سے چائے منگوایا کرتا تھا، اس کا ذخیرہ جواب دینے لگا تھا۔ پھر بھی چند ڈبے مل گئے اور بعض چینی دوستوں نے بطور تحفہ کے بھی بھیج کر چارہ سازی کی۔ جب کلکتہ سے نکلا تو ایک ڈبہ ساتھ تھا۔ ایک گھر میں چھوڑ آیا تھا۔ بمبئی سے گرفتار کر کے یہاں لایا گیا تو سامان کے ساتھ وہ بھی آ گیا۔ اور پھر قبل اس کے کہ ختم ہو، گھر والا ڈبہ بھی پہنچ گیا۔ اس طرح یہاں اور چیزوں کی کتنی ہی کمی محسوس ہوئی ہو، لیکن چائے کی کمی محسوس نہیں ہوئی، اور اگر چائے کی کمی محسوس نہیں ہوئی تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی چیز کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی:
حافظ د گرچہ می طلبی از نعیم دھر ؟
مے می خوری و طرہ دلدار می کشی!
اس کی فکر کبھی نہیں ہوئی کہ یہ آخری ڈبہ چلے گا کب تک؟ کیونکہ خواج شیراز کی موعظت ہمیشہ پیشِ نظر رہتی ہے:
تا ساغرت پرست، بنو شان و نوش کن
یہاں ہمارے زندانیوں کے قافلہ میں اس جنس کا شناسا کوئی نہیں ہے۔ اکثر حضرت دودھ اور دہی کے شائق ہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دودھ اور دہی کی دنیا چائے کی دنیا سے کتنی دور واقع ہوئی ہے؟ عمریں گزر جائیں پھر بھی یہ مسافت طے نہیں ہو سکتی کہاں چائے کے ذوقِ لطیف کا شہرستانِ کیف و سرور، اور کہاں دودھ اور دہی کی شکم پری کی نگری!
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں؟
جواہر لال بلاشبہ چائے کے عادی ہیں اور چائے پیتے بھی ہیں، خواص یورپ کی ہم مشربی کے ذوق میں بغیر دودھ کی۔ لیکن جہاں تک چائے کی نوعیت کا تعلق ہے شاہراہِ عام سے قدم باہر نہیں نکال سکتے اور اپنی لیپچو و پیپچو ہی کی قسموں پر قانع رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں اِن حضرات کو اس چائے کے پینے کی زحمت دینا نہ صرف بے سود تھا، بلکہ “وضع الشء فی غیر محلہ” کے حکم میں داخل تھا:
مئے بہ زہاد مکن عرضہ کہ این جوہرِ ناب
پیشِ ایں قوم بہ شوراب زمزم نہ رسد
ان حضرات میں صرف ایک صاحب ایسے نکلے جنہوں نے ایک مرتبہ میرے ساتھ سفر کرتے ہوئے یہ چائے پی تھی اور محسوس کیا تھا، کہ اگرچہ بغیر دودھ کی ہے مگر اچھی ہے۔ یعنی بہتر چیز تو دہی دودھ والا گرم شربت ہوا جو وہ روز پیا کرتے تھے مگر یہ بھی چنداں بری نہیں۔ زمانے کی عالمگیر خیرہ مذاقی دیکھتے ہوئے یہ ان کی صرف “اچھی ہے” کی داد بھی مجھے اتنی غنیمت معلوم ہوئی کہ کبھی کبھی انہیں بلا لیا کرتا تھا کہ آئیے، ایک پیالی اس “اچھی ہے” کی بھی پی لیجیے:
عمرت دراز باد کہ ایں ہم غنیمت است
ان کے لیے صرف “اچھی” ہوئی۔ یہاں چائے کا سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے اگر یہ “اچھی ہے” ختم ہو جائے۔ غالب کیا خوب کہہ گیا ہے:
زاہد از ما خوش تا کے بہ چشمِ کم مبیں
ہیں، نمی دانی کہ یک پیمانہ نقصان کردہ ایم
مگر ایک ڈبہ کب تک کام دے سکتا تھا؟ آخر ختم ہونے پر آیا۔ چیتہ خان نے یہاں دریافت کرایا۔ پونا بھی لکھا۔ لیکن اس قسم کی چائے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اب بمبئے اور کلکتہ لکھوایا ہے۔ دیکھیے کیا نتیجہ نکلتا ہے، ایک ہفتہ سے وہی ہندوستانی سیاہ پتی پی رہا ہوں اور مستقبل کی امیدوں پر جی رہا ہوں:
نہ کنی چارہ لبِ خشک مسلمانے را
اے بہ ترسا بچگان کردہ مے ناب سبیل !
آج کل چینی ہندوستان کے تمام شہروں میں پھیل گئے ہیں اور ہر جگہ چینی ریستوران کھل گئے ہیں۔ چونکہ احمد نگر انگریزی فوج کی بڑی چھانی ہے، اس لیے یہاں بھی ایک چینی ریستوران کھل گیا ہے۔ جیلر کو خیال ہوا کہ ان لوگوں کے پاس یہ چائے ضرور ہوگی۔ اس نے خالی ڈبا بھیج کر دریافت کرایا۔ انہوں نے ڈبا دیکھتے ہی کہا کہ یہ چائے اب کہاں مل سکتی ہے؟ لیکن تمہیں یہ ڈبا کہاں سے ملا؟ اور اس چائے کی یہاں کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا چین کا کوئی بڑا آدمی یہاں آ رہا ہے؟ جو وارڈر بازار گیا تھا اس نے ہرچند باتیں بنائیں مگر ان کو تشفی نہیں ہوئی۔ دوسرے دن سارے شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ میڈم چنگ کائی شک قلعہ کے قیدیوں سے ملنے آ رہی ہے، اور اس کے لیے چینی چائے کا اہتمام کیا جا رہا ہے:
بہ بیں نقشِ املہا چہ باطل افتادست
چائے کے ڈبے کی تہ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ پتیوں کا چورا بیٹھ جایا کرتا ہے اور اسے ڈبے کے ساتھ پھینک دیا کرتے ہیں۔ یہ آخری ڈبا ختم ہونے پر آیا تو تھوڑا سا چورا اِس کی تہ میں بھی جمع تھا۔ میں نے چھوڑ دیا کہ اسے کیا کام لاں۔ لیکن چیتہ خان نے دیکھا تو کہا، آج کل لڑائی کی وجہ سے “ضائع مت کرو” کا نعرہ زبانوں پر ہے، یہ چورا بھی کیوں نہ کام میں لایا جائے؟ میں نے بھی سونچا کہ:
بہ درد و صاف تر احکم نیست، دم درکش
کہ ہر چہ ساقء ماریخت عین الطاف است
چنانچہ یہ چورا بھی کام میں لایا گیا، اور اس کا ایک ایک ذرہ دم دے کر پیتا رہا۔ جب فنجان میں چائے ڈالتا تھا، تو ان ذروں کی زبانِ حال پکارتی تھی:
ہر چند کہ نیست رنگ و بویم
آخر نہ گیاہِ باغِ او یم!
اس تخیل نے کہ اِن ذروں کے ہاتھ سے کیف و سرور کا جام لے رہا ہوں، تو سنِ فکر کی جولانیوں کے لیے تازیانہ کا کام دیا، اور اچانک ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا۔ ہا، مرزا بیدل نے میری زبانی کہا تھا:
اگر دماغم دریں شکستاں خمارِ شرمِ عدم نہ گیرد
زچشمکِ ذرہ جام گیرم بہ آں شکوہے کہ چم نہ گیرد
دریں قلمرو کفِ غبارم، بہ ہیچ کس ہمسری نہ دارم
کمالِ میزانِ اعتبارم بس ست کز ذرہ کم نہ گیرد
اس تجربے کے بعد بے اختیار خیال آیا کہ اگر ہم تشنہ کام کی قسمت میں اب سرجوشِ خم کی کیفیتیں نہیں رہی ہیں، تو کاش اس تہِ شیش ناصاف ہی کے چند گھونٹ مل جایا کریں، غالب نے کیا خوب کہا ہے:
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے، ورنہ
یوں ہے کہ مجھے دردِ تہہِ جام بہت ہے
شکر کے مسئلہ نے بھی یہاں آتے ہی سر اٹھایا تھا، مگر مجھے فورا ہی اس کا حل مل گیا، اور اب اس طرف سے مطمئن ہوں۔ موٹے دانوں کی صاف شکر تھوڑی سے میرے سفری سامان میں تھی جو کچھ دنوں تک چلتی رہی۔ جب ختم ہو گئی تو میں نے خیال کیا کہ یہاں ضرور مل جائے گی۔ نہیں ملی تو ڈلیوں کے بکس تو ضرور مل جائیں گے۔ لیکن جب بازار میں دریافت کرایا تو معلوم ہوا، امن کے وقتوں میں بھی یہاں اِن چیزوں کی مانگ نہ تھی، اور اب کہ جنگ کی رکاوٹوں نے راہیں روک دی ہیں اِن کا سراغ کہاں مل سکتا ہے؟ مجبورا مِصری منگوائی اور چاہا کہ اسے کٹوا کر شکر کی طرح کام میں لاں۔ لیکن کوٹنے کے لیے ہاون کی ضرورت ہوئی۔ جیلر سے کہا۔ ایک ہاون اور ہاون دستہ منگوا دیا جائے۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ یہاں نہ ہاون ملتا ہے نہ دستہ۔ حیران رہ گیا کہ کیا اِس بستی میں کبھی کسی کو اپنا سر پھوڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی؟ آخر لوگ زندگی کیسے بسر کرتے ہیں؟
حدیثِ عشق چہ داند کسے کہ در ہمہ عمر
بہ سر نہ کوفتہ باشد در سرائے را
مجبورا میں نے ایک دوسری ترکیب نکالی۔ ایک صاف کپڑے میں مصری کی ڈلیاں رکھیں اور بہت سا ردی کاغذ اوپر تلے دھر دیا، پھر ایک پتھر اٹھا کر ایک قیدی کے حوالے کیا، جو یہاں کام کے لیے لایا گیا ہے کہ اپنے سر کی جگہ اسے پِیٹ:
دریں کہ کوہکن از ذوق داد جاں چہ سخن؟
ہمیں کہ تیشہ بر سر دیرزد، سخن باقی ست
لیکن یہ گرفتارِ آلات و وسائل بھی کچھ ایسا:
سرگشت خمارِ رسوم و قیود تھا!
کہ ایک چوٹ بھی قرینہ کی نہ لگا سکا۔ مصری تو کٹنے سے رہی۔ البتہ کاغذ کے پرزے پرزے اڑ گئے اور کپڑے نے بھی اس کے روئے صبح کا نقاب بننے سے انکار کر دیا۔
چلی تھی برچھی کِسی پر، کسی کے آن لگی!
بہرحال کئی دنوں کے بعد خدا خدا کر کے ہاون کا چہر زشت نظر آیا۔ “زشت” اس لیے کہتا ہوں کہ کبھی ایسا انگھڑ ظرف نظر سے نہیں گزرا تھا۔ آجکل ٹاٹا نے ایک کتاب شائع کی ہے۔ یہ خبر دیتی ہے کہ ہزاروں برس پہلے وسط ہند کے ایک قبیلہ نے ملک کو لوہے اور لوہاری کی صنعت سے آشنا کیا تھا۔ عجب نہیں کہ یہ ہاون بھی اسی قبیلہ کی دست کاریوں کا بقیہ ہو، اور اس انتظار میں گردشِ لیل و نہار کے دن گِنتا رہا ہوں کہ کب قلعہ احمد نگر کے زندانیوں کا قافلہ یہاں پہنچتا ہے اور کب ایسا ہوتا ہے کہ انہیں سر پھوڑنے کے لیے تیشہ کی جگہ ہاون و دستہ کی ضرورت پیش آتی ہے:
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں!
خیر کچھ ہو، مصری کوٹنے کی راہ نکل آئی، لیکن اب کٹی ہوئی مصری موجود ہے، تو وہ چیز موجود نہیں جس میں مصری ڈالی جائے:
اگر دستے کنم پیدا، نہ می یا بم گریباں را
دیکھیے، صرف اتنی بات کہنی چاہتا تھا کہ چائے ختم ہو گئی، مگر بائیس صفحے تمام ہو چکے اور ابھی تک بات تمام نہیں ہوئی:
یک حرفِ بیش نیست سراسر حدیثِ شوق
ایں طرفہ ترکہ ہیچ بہ پایاں نمی رسد!

ابو الکلام

__._,_.___

اپنا تبصرہ لکھیں