ورک پروگرام 2022-2020

اردو ترجمہ: ساجدہ پروین

(یہ خط نارویجن نہ سمجھنے والے والدین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی نسلوں کے ذہنوں کی خفاظت کریں اور اس والد کی طرح اپنے بچوں کے سکولوں سے رابطہ میں رہیں کہ وہاں کیا سکھایا جا رہا ہے)
یہ خط اوسلو کے ایک علاقائی اسکول کے پرنسپل کے نام مئی 2022 میں ایک پرعزم
والد نے بھیجا تھا۔ خط میں اسکول کی نصابی کتابوں میں صنف اور جنسیت کی تعلیم پر اور سکولوں میں پرائیڈ ہفتہ منانے کی سرگرمیوں کےبارے میں اپنے دو بچوں کے لیے والد کی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اگر آپ خط یا اس کے کچھ حصوں کو اسکول سے الگ پوچھ گچھ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو آپ متن کو کاٹنے، پیسٹ کرنے اور ترمیم کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ذیل کا خط متن کا ایک گمنام ورژن ہے، جس میں تمام افراد کے نام، اسکول درج نہیں کئے گئے ہیں

*اوسلو( ناروے) اسکول کے پرنسپل اور انتظامیہ کے نام کھلا خط،

تجدید نصاب (Fagfornyelsen 2020) میں جو کچھ پڑھتا ہوں اس کے کچھ حصوں کے بارے میں انتہائی پریشان اور فکر مندہوں، جو میرے کچے ذہن کے دو بچے 3rd اور 5th جماعت کے جنسیت، جنس اور صنفی شناخت کے بارے میں سیکھیں گے۔ سچ پوچھیں تو میں واقعی حیران و پریشان ہوں۔

میں اس بارے میں اسکول کے ساتھ ایک اچھا اور کھلا مکالمہ چاہتا ہوں، اور اس لیے ذیل میں دیے گئے نکات کے بارے میں بات چیت کے لیے جلد از جلد آپ سے ملنا چاہوں گا۔
میری تشویش بنیادی طور پر درج ذیل دو مسائل کے بارے میں ہے.
1. میں فکر مند ہوں کہ اسکول انتظامیہ ایک ہفتے تک اسکول میں پرائڈ جھنڈا بلند کرے گی. میں جانتا ہوں کہ اوسلو کے زیادہ تر اسکول پرائیڈ پرچم، اس جنس کی نمائندگی کے لئے لہرائیں گے.

شمولیت اور تنوع، لیکن پرائیڈ پریڈ بنیادی طور پر جنسی پالیسی کی تنظیم Foreningen Fri (سابقہ ​​LLH) کے ذریعے منعقد کی جاتی ہے.
FRI کی ویب سائٹ پر، وہ یہ ہے کہ ایک ہی جنسیت کی بے انتہا وکالت کرتے ہیں جس میں واضح طور پر تعداد ازدواج اور انکی سیروگیٹی اور تیسری جنس کےتعارف میں غیر مدلل، غیرمتوازن،
مبہم، متنازعہ
سیاسی لڑائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں.
۔ (https://www.foreningenfri.no/om-oss/fri-mener/arbeidsprogram-2020-2022/)۔
مجھے خدشہ ہے کہ میرے اور دوسروں کے بچوں کو اس غیر سائنسی اور مبہم صنفی نظریے کی طرف راغب کیا جائے گا جو سکولوں میں سبجیکٹ رینیو 2020 کے سلسلے میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ یقیناً تجدیدمضمون میں کئی اچھے نکات بھی ہیں – لیکن بدقسمتی سے صنف کے بارے میں وضاحتی نکات خاص طور پر انتہائی پریشان کن ہیں۔

میں دیکھتا ہوں کہ تجدید مضمون میں ایسی اصطلاحات بھی ہیں جو کئی دہائیاں قبل خواتین کے حیاتاتی حقوق کی جنگ کا تعین کرتیں تھیں ۔

مجھے خدشہ ہے کہ میرے اور دوسروں کے بچوں کو اس غیر سائنسی اور مبہم صنفی نظریے کی طرف راغب کیا جائے گا جو سکولوں میں سبجیکٹ رینیو 2020 کے سلسلے میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ یقیناً مضمون کی تجدید کے کئی اچھے نکات بھی ہیں
تجدیدمضمون کے جو نکات بچوں کے تدریسی مواد میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کی وضاحت جس انداز سے کی گئی ہے،اسے پڑھ کر میں لرز اٹھا ہوں۔ بچوں کو جو فارمولیشنز پڑھنی ہیں وہ ایک بنیاد پرست صنفی نظریہ کو جنم دیتی ہیں جو ان کے لیے غیر سائنسی اور براہ راست نقصان دہ /مزیدذہنی الجھن کا باعث بنے گی.
جنسی شناخت (ایک انسان غلط جسم میں پیدا ہو سکتا ہے)، صنفی تنوع (دو سے زیادہ جنسیں ہیں، اور ایک انسان کی بیک وقت کئی جنسیں ہو سکتی ہیں بظاہر دکھنے میں وہ مرد/عورت ہے لیکن اس کے محسوسات عورت جیسے ہیں یا اس کے برعکس وہ دکھنے میں عورت ہے لیکن اپنے اندر مردانہ احساسات رکھتی ہے)، ضمیر ( یہ لفظ تدریسی مواد میں اس حقیقت کے باوجود بدستور استعمال ہوتا ہے جسے نارویجن لینگویج کونسل نے نامنظور کر رکھا ہے)، cis (وہ الفاظ جو صنف اور حیاتیاتی جنس کو برابر سمجھتے ہیں)۔

مجھے خدشہ ہے کہ یہ تعلیم مزیدبہت سے بچوں کو ذہنی طور پر غیر یقینی صورتحال میں مبتلاکرے گی اور پہلے سےذہنی الجھن کےشکار ان چند لوگوں کی الجھن میں مزیداضافہ کا باعث بنےگی جو پہلے سے کسی سطح پرصنفی ڈسفوریا اور صنفی عدم مطابقت کا شکار ہیں.

گزشتہ 40 سال کے دوران جب سے قانونی طور پر تبدیلی جنس کا بچوں کو اختیار اوراجازت دی گئی ہے. تب سے لے کر اب تک مختلف قسم کے صنفی ڈسفوریا کا بچوں اور نوجوانوں میں تیزی سے اضافہ تشویشناک ہے -(عوامی اعدادوشمار: ناروے میں 0.03% (10,000 میں سے 3)
اور میں اس سلسلے میں Gyldendal (Skolestudio) کے آن لائن تدریسی مواد/ کو” جلتی پرتیل کا کام” کے طور پر تجزبہ کرتا ہوں۔ اس لیے میں اپنے بچوں کی اس تدریسی مواد تک مکمل رسائی ہونے پر بہت حوصلہ شکنی کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں میرے پاس اپنےبچوں کے لیے مخصوص صفحات کو بلاک کرنے کا اختیار اور طریقہ ہوناچاہے. کیا اسکول تدریسی مواد کا ازسر نو جائزہ لے سکتا ہے؟

میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز دونوں میں صحت اورمسائل زندگی میں مہارت کوجنس اور جنسیت کے نقطہ نظر سے پیش کیا جاتا ہےجو جنسی مساوات(مرد و عورت) کے نقطہ نظر سےسرا سر غلط اور غیر متوازی ہے۔(صرف ایک جنس کے نقطہ نظر سے بچوں کو زندگی کے مسائل دیکھنے کی ترغیب دی جائے)
میں اسکول سے کہتا ہوں کہ مجھے اس ہفتہ کے مکمل تدریسی اوقات(ukas plan) کی تفصیل بھیجے اور ان اوقات میں صنف، صنفی شناخت پر جو کچھ بات کی جائے گی اس کی تفصیل بھی بھیجیں.قانونی طور پراپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے ، میں اپنے دو بچوں کے لیے ان تمام تدریسی اوقات سے اپنے بچوں کے لیے چھوٹ مانگوں گا۔ بصورت دیگر میں ان اسباق کی تدریس کےدوران کلاس روم میں موجود رہنا چاہوں گا جہاں یہ پڑھایا جانا ہے، تاکہ میں اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ جوکچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ FRI کے غیر سائنسی صنفی نظریے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ہم اس بارے میں مزید بات(سکول میٹینگ میں) کریں گے۔

خلاصہ؛

1. کیا اگلے ہفتے کے آخر تک اسکول انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ کرنا ممکن ہے؟

2. کیا اوسلواسکول کو پرائڈ کا نشان ضرور لگانا چاہیے؟جب تک کہ کوئی پرائڈ کی تقریبات منعقد کی جائیں گی میں اپنے بچوں کو سکول سے باہر لے جاؤں گا.

3۔ تیسری اور پانچویں جماعت میں صنف کی نئی تفہیم کب اور کن مضامین میں پڑھائی جائے گی؟ میں اپنے بچوں کو اسکول کے ان اوقات سے نکالنا چاہتا ہوں۔

4. میں اسکول میں پرائیڈ کے جشن کے حوالے سے میونسپل سطح سے اسکول کو موصول ہونے والی تجاویز، درخواستوں، وسائل اور ہدایات تک رسائی کی بھی درخواست کرتا ہوں۔

تعلیم سے استثنیٰ کا میرا نوٹیفکیشن ایجوکیشن ایکٹ §§ 2-3 a. سرگرمیوں وغیرہ سے استثنیٰ کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ تربیت میں (ای میل کے نیچے قانونی متن کا پہلا حصہ دیکھیں)
Hilsen والسلام
Far:…. . اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر جا
ئیے-

Arbeidsprogram 2020-2022

اپنا تبصرہ لکھیں