ورلڈ اسلامک مشن کی معلمہ عائشہ شفیقہ کا انٹرویو

میری ملاقات محترمہ عائشہ شفیقہ سے ایک محفل میلاد میں ہوئی تھی۔ان کی متاثر کن شخصیت کی طرح گفتگو بھی پرتاثیر تھی۔بات کرتے ہوئے احساس ہوتا تھا کہ کسی اہل دل شخصیت کے سامنے بیٹھے ہیں۔ناروے میں پاکستانوں کی کل آبادی پینتیس اور چالیس ہزار کے قریب ہے۔ایسے میں اگرکوئی پاکستانی خاتون جو تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہونے کے ساتھ ساتھ دینی رجحان بھی رکھتی ہوں۔ان سے ملاقات کسی سرپرائز سے کم نہیں۔اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے قارئین بھی اس سرپرائز سے فیضیاب ہوں۔اس لیے ان سے کیا گیا خصوصی انٹر ویو آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
عائشہ شفیقہ کا تعارف
انکا اصل نام آشفہ ناز جبکہ عائشہ تخلص ہے۔آشفہ کا آبائی شہر سیالکوٹ ہے۔ انہوں نے لاہور کے جامعہ نعمانیہ سے اسلامیت میں قرآت عربی گرامر،فقہی مسائل اور عالمہ کا بنیادی کورس کیا۔اس کے بعد سیالکوٹ مجاہد اسکول میں نویں دسویں جماعت کو انگلش اور اسلامیات کی تدریس کرواتی تھیں۔اس کے بعد اسی اسکول میں بطور پرنسپل انکی تعیناتی ہوئی۔
ناروے ماہ مارچ کی انیس تاریخ کو دو ہزار پانچ میں شادی ہو کے آئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں میری فیملی بہت بڑی تھی لیکن یہاں پ کوئی عزیز رشتہ دار نہیں تھا۔لیکن الحمداللہ دو ہزار سات میں مسجد جوائن کی۔ان دنوں یہاں پروفیسر عطاء مصطفیٰ درس دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ورلڈاسلامک میں ہمیں معلمہ کی ضرورت ہے۔مگر کچھ عرصہ بعد نارویجن زبان کا کورس کرنے کے لیے یہ جاب چھوڑدی۔
آپکے مشاغل؟
میرے مشاغل میں شاعری اور ادب سے دلچسپی شامل ہے۔اس کے علاوہ اسکول کالج کے وقت سے مضمون نویسی اور نظمیں بھی کہی ہیں۔پہلی غزل فسٹ ائیر میں کہی تھی۔جو کچھ یوں ہے

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
پیار محبت عشق و وفا ہے سب جھوٹی باتیں
یہ تو وہ قصے ہیں جو صرف کتابوں میں ملیں
آشفہ آخری حسرت ہے جب وہ ملنے آئیں
ہم کفن پوش سرخ گلابوں میں ملیں
انہوں نے بتایا کہاس کے علاوہ انہوں نے مختلف سماجی مسائل پر مضامین تحریر کیے اس کے جہیز کی لعنت اور تعلیم نسواں کے موضوع پر بھی مضامین تحریر کیے۔
و رلڈ اسلامک اسکول ہولمیا میں بچوں کو بھی تعلیم و تدریس دی جاتی ہے۔یہاں ہر روز سوموار سے جمعرات تک قرآن ناظرہ حفظ قرآن احادیث قرآنی دعائیں سنت رسول اسلامی سوال و جواب اور بنیادی عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے۔
سوموار کو یہاں شام پانچ سے چھ بجے تک کلاسیں ہوتی ہیں۔جبکہ والدین میں احساس ذمہ اری پیدا کرنے کے لیے ماہانہ فیس ایک سو کراؤن لی جاتی ہے۔مسجد میں قاری صاحب خود کلاسز لیتے ہیں جبکہ بچوں میں کوئز کے مقابلے بھی کروائے جاتے ہیں۔
میں نے جب مسجد میں کام شروع کیا مجھے یہاں بچوں کو پڑھا کر انہیں اصلاحی تعلیم دے کر بے حد سکون ملا۔یہ اللہ کا کرم ہے اس میں میرا دخل نہیں ہے۔والدین نے بہت اچھی فیڈ بیک دی۔اس وجہ سے کئی والدین بھی نماز پڑھنا شروع ہو گئے۔سوال۔۔ناروے جیسے غیر اسلامی ملک میں آپ کے لیے اسلام پر چلنا کیسا ہے؟
ناروے میں ہمیں بہتسہولیات ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں اس طرح نہیں کر سکتے۔۔اسلامی نقطہ نظر سے بچیوں کو حجاب کی وجہ سے کسی کسی جگہ مسائل کا سمامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن یہاں حجاب کی وجہ سے ہچکچاہٹ تو ہوتی ہے لیکن اگر آپکا کام بہت اچھا ہے تو کسی کو اعتراض نہیں رہتا۔سوچنے کی بات ہے کہ یہ اسلامی ملک نہ ہونے کے باوجود لوگ اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں۔لیکن پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے کہ حجاب والی لڑکیوں اور خواتین کو ملازمت کے سلسلے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہاں کی حکومت تعاون کرتی ہے اور یہاں کئی مساجد بن رہی ہیں کوئی پابندی نہیں ہے۔جو کہ دینی تعلیم کے لیے ایک خوش آئند بات ہے
سوال۔۔یہاں بزرگوں اور معمعر افراد پر ماحول کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟
ہماری زندگیوں میں اپنے پیچھے چھوڑ کر آنے والے رشتوں کی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے۔لیکن اسکے علاوہ یہاں کے سسٹم میں کوئی کمی نہیں ہے۔ماحول انسان خود بناتا ہے۔کوئی اچر انداز نہیں ہو سکتا۔جہاں تک بچوں کو اسلامی تربیت دینے کی بات ہے تو اس کم کو باہمی مشاورت سے دور کیا جا سکتا ہے۔سب مل کر ایک مشترکہ فورم بنائیں۔ایک ایسی جگہ ہو جہاں مستقبل کے اسکالر تیار کیے جائیں۔پورے اسلامی معاشرے میں عالمی سطح پر آگاہ حاصل ہو۔مذہب مساء کو یہ اسکالرز حل کریں۔بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔میں درس میں بھی خواتین کو اس بات کی جانب مائل کرتی ہوں کہ بچوں سے دوستانہ انداز میں بات کریں انہیں بتائیں کہ دوست کون ہے؟
بچپن میں سنا کرتے تھے کہ دیکھو شیر کی نگاہ سے اور کھلاؤ سونے کا نوالہ۔ایک خراب ٹماٹر سارے ٹماٹر خراب کر دیتا ہے۔ہمیں یہ چیک کرنا ہو گا کہ بچہ کن بچوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔جب بچے دیکھتے ہیں کہ والدین کے پاس وقت نہیں ہے تب وہ دوسروں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔والدین کا کردار بہت اہم ہے۔انہیں چاہیے کہ ان کے اساتذہ سے رابطہ رکھیں۔مذہبی اور سماجی تنظیمیں نو جوانوں کو مصروف رکھیں۔والدین انہیں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔یہ نہیں کہ بچے ہر وقت موبائل پر مصروف رہیں۔انہیں ایسا ماحول دیں کہ وہ شادیاں کر کے یہاں کے ماحول میں ہی ایڈجسٹ کر لیں۔
سوال۔۔آپ کے شوہر آپ کی ملازمت کے سلسے میں کیا تعاون کرتے ہیں؟
میرے شوہر بھی دین سے عقیدت رکھتے ہیں۔تحسین و حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔میری کشش ہوتی ہے کہ امور خانہ داری میں شکائیت نہ ہو۔یعنی جاب گھر کے کاموں میں رکاوٹ نہ بنے۔انہیں بھی مسجد میں کام کا شوق ہے۔ناروے کی پہلی مسجد کی تعمیر میں بھی انہوں ے حصہ لیا ہے۔جب بھی کوئی دینی کام کے لیے آواز دے یہ لبیک کہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں