ورلڈز ٹیچرز ڈے اور ہم

باعث افتخار

title ujalaiy

انجینئر افتخار چودھری
جی آج استادوں کا عالمی دن ہے۔اللہ تعالی سب اساتذہ کوسلامت رکھے ہمیں جنہوں نے پڑھایا وہ اب ابدی نیند سو رہے ہیں اللہ پاک ان کی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے آمین۔انور مسعود نے لفظ استاد کو اس طرح سنورا ہے کہ آپ کو سنانے کو جی چاہتا ہے فرماتے ہیں لفظ بولتے ہیں شرارتیں کرتے ہیں ایک ہوتا ہے استاد محترم جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ استاد کی بات کر رہے ہیں جو کتاب لے کر کسی کو پڑھاتا ہے ایک ہوتا ہے تسی بڑے استاد او اس میں کسی کی چالاکی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ایک ہو بھی ہوتا ہے وے استاد اس سے صنف نازک کی شکل نظر آتی ہے جو شائد بالا خانے میں کسی سے مخاطب ہے۔بات کچھ بھی ہو استاد استاد ہوتا ہے چاہے وہ اسکول میں پڑھائے مسجد میں یا کسی ورکشاپ میں چھوٹو کو۔مجھے سب سے پہلے جس استاد کا ذکر کرنا ہے ان کا نام ماسٹر غلام رسول ہے جو ایم سی پرائمری اسکول نمبر ۵ باغبانپورہ سلکو ملز والی گلی کے ہیڈ ماسٹر تھے یہ اسکول بعد میں لالے ذوالفقار کے کارخانے میں منتقل ہو گیا تھا میں یہیں سے فارغ التحصیل ہوا ہوں یہیں میں نے زانو تلمذ طے کیا اور اپنے معزز اساتذہ گرام کی محنت سے ترقی کی منازل طے کیں۔ہماری یونیفارم ملیشئے کا جوڑا تھا اور اسی ملیشئے کے کپڑے سے بنا بستہ تھا۔کلاس میں ٹاٹ نما نامی بچھونا تھا کسی ایک کلاس میں لکڑی کے تختے بھی تھے جو آج کل مردے نہلائے جانے کے کام آتے ہیں۔ماسٹر غلام حسین نے کلاس میں داخلے کے وقت جو زبان استعمال کرنا ہوتی تھی اسے اردوء معالی مبھی بیان کرنے سے قاصر ہے۔موصوف نے قسم کھا رکھی تھی کہ سلام سے پہلے ماں بہن کی موٹی سی گالی دینا فرض اولیں ہے وہ اصل میں پنجاب پولیس کے لئے پیدا ہوئے تھے لیکن کسی وجہ سے اس اسکول کے پرنسپل یعنی ہیڈ ماسٹر بن گئے۔غضب کا پیار کرتے تھے مگر پیار کے اظہار میں استاد امام دین گجراتی مکتب فکر سے تعلق تھا ہر ایک کا نام رکھا ہوا تھا یقین کیجئے ہمیں تو بعض اوقات اپنا نام بھی بھول جاتا تھا ہم پہاڑ سے آئے ہوئے تھے ہمیں پہاڑو کے لقب اعلی سے نوازا گیا مہر یونس کی آنکھیں پلک بھر میں ایک دوسرے سے ملتی تھیں انہیں یونا جھمکو کہا گیا۔کوئی یوسف پیڑ تھا کوئی مختارا ہندوستانی فاروقا سنڈی اور کوئی لوہارو۔ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہمیں حضرت اس نام سے پکاریں جو ہمارے ماں باپ نے رکھے تھے لیکن حسرت ہی رہی۔جناح کیپ ہنتے تھے کمر خمیدہ تھی پیٹ بڑھا ہوا ہم نے بھی ان کے شاگرد لطیف و عزیز ہونے کے ناتے ان کا نام ٹڈ ماسٹر رکھ دیا خمیدہ کمر اتنی پیاری لگتی تھی محسوس ہوتا کہ جناب کسی چیز کو ڈھونڈ رہے ہیں۔کن پھڑ لؤ تو ان کا تکیہ کلام تھا کن پھڑنے میں ہم سب ہشیار تھے جس کی کمر اٹھی ہوئی ہوتی اس پر ڈنڈا برساتے ڈنڈا حرامزادہ اتنا تیز تھا لگتا تھا کہ تیل میں بھگو کے لائے ہیں۔دن میں تارے نظر آ جاتے تھے ایک بار امتحان میں پوچھا کہ دن میں تارے نظر آنا کو استعمال کریں میں نے لکھ دیا جب استاد محترم کان پکڑوا کر کمر پر ڈنڈا رسید کرتے ہیں تو ہمیں دن میں تارے نظر آ جاتے ہیں۔ماسٹر جی کی رعب دار آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔تو وہ وقت یاد آ جاتا نہ فاقہ نہ فکر۔ہاں ایک ڈر ضرور رہتا تھا۔اسکول میں سب سے زیادہ پیاری اور بھلی آواز اس گھنٹی کی ہوتی تھی جو چھٹی کی گھنٹی ہوتی تھی اور وہ بھی مقام مسرت ہوتا تھا جب ہمیں پتہ چلتا کہ ماسٹر جی کی پھوپھی بیمار ہے اور وہ آج نہیں آئیں گے۔ہم دل ہی دل میں دعا کرتے کاش آج کسی وقت پھوپھی جی مر جائیں تا کہ ماسٹر جی کل نہ آئیں۔ماسٹر جی گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں محو استراحت ہیں۔اللہ پاک انہیں جنت کا اعلی درجہ بخشے لیکن یہ بھی دعا ہے اس درجے میں ہمیں کسی ایسے کونے کھدرے میں جگہ دے جہاں پر ان کی نظر نہ پڑے ورنہ وہیں انہوں نے کہہ دینا کن پھڑ اوئے پہاڑیا۔یہ باغبانپورہ کی کی دوسری جانب والی گلی میں رہتے ہیں جہاں وفاقی محتسب اعلی سید طاہر شہباز کا گھر ہے شاہ جی شائد اسی وجہ سے ترقی کر گئے کہ وہ عظیم استاد کے گوانڈی تھے جس نے ہمیں سیدھا کر کے رکھ دیا۔اللہ ماسٹر جی آپ کی قبر کو جنت کا بغ بنائے۔آپ کی مار دودھ گھیو دی دھار تھی۔اس روز امریکن سٹڈی پڑھی جس میں بتایا گیا کہ آج کل کے بچے پڑھتے بہت ہیں مگر سیکھتے کچھ نہیں۔آگے چل کر بتاؤں گا کیا سکھایا ان جیسے استادوں نے ۔
دوسرے استاد مولوی یوسف تھے سبحان اللہ گورا چٹا رنگ سیاہ لمبی داڑھی درمیانہ قد مولوی یوسف جی نے ہمیں ایک کلاس پڑھائی آج تک جو آڑھی ترچھی لکیریں لکھتا ہوں ان میں مولوی یوسف،حافظ حاجی احمد مر راتھر کا کمال کا حصہ ہے۔گرم و نرم دم گفتگو مولوی یوسف نے نبی پاکﷺ سے محبت سکھائی ہم تختی پر نام محمدﷺ لکھتے تو اسے عام نالی میں بہانے نہیں دیتے تھے ایک قطار میں لے جا کر چلتے کنویں سے اسے دھلواتے اور کہتے ہمارے نبی کا نام ہے اسے گندی نالی میں نہیں بہانا۔شائد یہی وجہ ہے جب کبھی حرمت رسولﷺ پر آنچ آئی تو تڑپ اٹھا۔دین کی باتیں ایسے سکھائیں جنگ بدر میں معوز اور معاز کی داستان کچھ اس پیار سے سکھاتے کہ جی چاہتا اڑ کر اب جہل کا سر فردن سے الگ کر دوں۔مولوی یوسف اردو کے مشکل الفاظ کو اس طرح سکھاتے کہ مزہ آ جاتا۔آلو بخارے کی خالی پیٹیوں کی لکڑی پر لڑکوں سے کالا رنگ کراتے اور پھر اس پر مشکل الفاظ لکھ کر کلاس روم میں لٹکا دیتے لڑکے ہر روز صبح آ کر انہیں پڑھتے اس طرح لڑکوں کا منہ دوسری جانب کرا کر ساری کتاب ازبر کرا دیتے تھے۔یہ تھی میری اردو کی بنیاد۔میں نے پہلی تقریر دوسری جماعت میں کی اور پہلی تحریر بچوں کے جنگ میں نو سال کی عمر میں لکھی۔استاد یوسف پتنگیں اڑانے منع کیا کرتے تھے جس کسی کی شکائیت آتی اس کے ماتھے پر پتنگ باز لکھ دیتے تھے اور اس کے بعد اسے ہر کلاس میں بھیجا کرتے۔ہمارے گھر کے ساتھ ایک نالہ تھا جو کسی زمانے میں بہت صاف تھا مگر ہمارے دور میں ہی گندا ہو گیا اس میں فن تیراکی ہمارے حصے آیا کسی کی شاکئیت ہوتی تو جامن پنسل سے ماتھے پر مج لکھ کر پورے اسکول میں گھمایا جاتا۔ اس زمانے میں اقوام متحدہ کی جانب سے دودھ آیا کرتا تھا ہمیں کلاس میں پلایا جاتا۔گھی کا ڈبہ بھی ملا کرتا تھا جو ہم ولائتی سمجھ کر مفت میں دے دیتے تھے۔اسکول کے در و دیوار شور سے گونجتے رہتے تھے دو دونی چار کے پہاڑے جب دو گروہوں کی صورت سنائے جاتے تو ایک سماں بند ھ جاتا تھا۔اک دون دونی دو نیاں چار وے تین دونیاں چھ وے۔بس کیا بتائیں بندے ماترم کا گیت بن جاتا تھا۔استاد جی نوے نوے بچوں کو پڑھایا کرتے ہمدوران کلاس تختی پر قلمیں دوڑانے کا کھیل کھیلتے تھے گھر سے سیاہی کی دوات لانا مشکل کام تھا دہشت گرد لڑکے قلم لے کر زبردستی ڈھبہ لے لیتے تھے۔تختی لڑانے کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا جس میں اکثر تختی توڑ دیتا تھا۔کلاس کے نالئق ترین لڑکے مانیٹر بنا دئے جاتے تھے خالو سردارے دا یونا جھمکو اور ایک آدھ۔ان سے بنا کر کھنا ہوتی تھی بڑے ظالم قسم کے لڑکے تھے الو کے کان مکے کے اندر سے انگھوٹھا نکال کر وکھی میں مارتے تھے تو بے بے یاد آ جاتی تھی۔اضافی بستی کے اس محلے کی گلیاں کچی غریب لوگوں کے گھر تعفن زدہ چھپڑ سب کچھ یہاں تھا۔ہفتہ وار نہانے والے ان بچوں کی عادات خروجہ خراب تھیں اکثر کی تمبیاں اور ستھنیں براز خبیثہ سے لبریز ہو جاتیں ایک مہک سی فضاء میں چھا جاتی لگتاتھا کہ چوڑیاں دی ٹھٹھی ایم سی پرائیمری اسکول نمبر پنج میں ہی ہے۔
سالانہ کھیل ہوئے میں نے بھرپور حصہ لیا لیکن کوئی انعام نہیں لے سکا میوزک چیئر میں بھی ہار گیا اگلے دن جہاں جلسہ تھا وہاں گیا اور دیکھتا رہا کہ شائد کوئی انعام میرا بھی ہو گا جو رہ گیا ہو گا مگر واپس آ گیا اور سوچا زیادہ محنت کرنا ہو گا زیادہ کوشش کرنا ہو گی۔سچ ہی تو ہے مقابلے میں اترنا میری عادت تھی کسی کو چیلینج کر دینا یہ استادوں نے ہی سکھایا تھا ماسٹر نواز بڑے پہلوان قسم کے ٹیچر تھے کہا کرتے تھے موٹا ویخ کے ڈرئیے ناں تے پتلا ویخ کے چڑھئے ناں میں دبلا پتلا تھا۔مولوی اسحق کے اکھاڑے میں زور کرنا جایا کرتا تھا وہ بھی استاد تھے ان کے بیٹے حافظ عزیزاللہ مسٹر ایشیا بھی رہے ہیں۔ان کی بات سنیں کہا کرتے تھے کسے دے دھی تا پردہ چکو گئے تے اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھنا۔یہ تھی تربیت جس کا بعد میں سنا زنا قرض ہے۔استاد اسحق کا قد چھوٹا تھا گھوڑے شاہ کے پاس اکھاڑا تھا۔میں بھی گلو جو میرا پیارا دوست ہے اور آج کل فیصل آباد میں سپرینٹنڈینٹ جیل ہے چلا گیا زور ہوتا تھا میری خوبی یہ تھی میں کسی کو پکڑ لوں تو چھوڑتا نہیں تھا روتا تھا لیکن چھوڑتا نہیں تھا۔ایک بار ایک کاپی کے صفحے کا اشتہار بنایا استاد اسحق سے بات کی کہنے لگے پتر پانویں کج وی ہو جائے رومالی میں ہاتھ ڈال کر چھوڑنا نہیں اس کاپی کے اشتہار میں افتخارا پہلوان بمقابلہ کالو لکھ دیا گیا محلے کی گلیوں میں دھوم مچ گئی ایک روپیہ انعام تھا ایک روپیہ اتنی بڑی رقم تھی جو عید پر ملا کرتی تھی۔استاد جی سے تھاپڑا لیا اور کشتی میں کالو کو ہرا دیا روپیہ انعام ملا جو ثناؤ پہلوان نے چھین لیا۔چاچے اللہ دتے کا یہ لڑکا میرا حق دبائے ہوئے ہے حبیب اللہ اس کا بھائی امریکہ میں ہے اس وقت ڈالر سات روپے کا تھا۔میرے پیسے واپس کریں۔(دل بہت کرتا ہے لکھوں مگر صحت اجازت نہیں دے رہی تھک گیا ہوں)

اپنا تبصرہ لکھیں