واپسی‎

شریک حیات کا حکم تھا کہ آج بیٹی کے اسکول میں تمام والدہ کو میٹنگ کیلئے صبح دس سے دوبجے تک کیلئے مدعو کیا گیا ہے لہٰذا آج دوپہر کا کھانا باہر سے لے آنا۔سلطان بس ایسے ہی موقع کی تلاش میں رہتا تھا۔بہت بہتر کہہ کر ٹی وی پر اپنا من پسند پروگرام دیکھنے لگا۔ان کی روانگی کے بعد پروگرام کے درمیانی وقفے میں ایک اشتہار جس میں ایک ماں گھر کے باہر کھڑی ہوکر اپنے بیٹے کو کچھ پکانا سکھاتی دیکھ سلطان کے خرافاتی ذہن میں نئی ترکیب گشت کرنے لگی۔فوراً نٹر نیٹ شروع کیا اور پکوان کے ویڈیوز نکالے اور چند ایک منتخب کر گھر کے قریب دوکان سے مطلوبہ اشیاءلے آیا،کچن میں داخل ہوا اور کھانا بنانا شروع کردیا۔تقریباً تین گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس نے اس مہم کو سر کرلیا اور چار نئے پکوان تیار کر لئے۔ ہاتھ منہ دھو کراب وہ ان دونوںکامنتظر تھا ۔جب وہ آ گئیں تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا چلو جلدی بہت بھوک لگی ہے۔ان کے پوچھنے سے قبل ہی چاروں پکوانوں کے نام اور خود پکانے کی بات کہہ ڈالی۔”کھانا تو بڑا لاجواب بنا ہے۔“ واہ،مزہ آگیا۔”پاپا،پاپا مجھے پنیر کی سبزی بہت اچھی لگی۔“ ننھی صبا نے جیسے ہی کہا سلطان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔دونوں نے کھانے کی ایسی تعریف کی کہ سلطان کی ساری تھکن کافور ہوگئی۔ کھانے سے فارغ ہوکر جب وہ بیٹھے تو بیوی نے آہستہ سے کہا۔”اصل میں اسکول میں لنچ بریک بھی تھا جس میں ہمیں کھانا بھی دیا گیا تھا۔“ لیکن ہمارے گھر پہنچتے ہی آپ نے خود پکوان بنانے کی باتیں بتائیں تو میں نے صبا کو خاموشی سے اشارہ کردیا۔کیونکہ مجھے پتہ ہے جب ہم محنت سے کچھ تیار کریں اور کوئی نہ کہہ دے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔اور واقعی آپ نے تیار کئے ہوئے کھانے کھا کرہمیں ایسا لگا ہی نہیں کہ ہم کھانا کھا چکے ہیں۔یہ جملہ سننا تھا کہ سلطان سکتے میں آگیا۔اسے وہ سارے دن یاد آنے لگے جب وہ گھر پر بنا بتائے دوستوں کے ساتھ باہر کھانا کھا کر وارد ہوجاتا اور شان سے کہہ دیتا کہ آج تم لوگ کھانا کھالو میں کھاکر آیا ہوں۔اسے بہت شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔اہلیہ سے اس نے اپنے کئے پر پچھتاوا جتایااور تہیہ کرلیا کہ وہ آئندہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔کہیں سنا ہے کہ اگر سلطان کو کوئی ہرا سکے ہے تو وہ ہےخود سلطان،لیکن یہاں ملکہ کی حاضر دماغی نے سلطان کو ہرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاری نفیس جلیل،مالیگاؤں،مہاراشٹر،الہند

اپنا تبصرہ لکھیں