نہ مجھے سہی مرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے

غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل

نہ مجھے سہی مرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے
کبھی تو بھی تو مری یاد میں کوئی شام دیکھ گزار کے

خم_زلف اپنے ہی ہاتھ سے تو ہمیشہ کیوں ہے سنوارتا
کبھی دیکھ زلفوں کو جھومتے مری انگلیوں سے سنوار کے

جو بناتے ساز تھے جسم کو، جو بناتے نغمہ تھے قلب کو
کبھی کاش لوٹ کے آ سکیں وہی جھونکے پھر سے بہار کے

مری ہاں کے بدلے میں ہاں اگر تری ہار ہے تو یہی سہی
ہے عزیز جیت ہی کیوں تجھے، کبھی دیکھ تو بھی تو ہار کے

میں دعائیں کرتا ہوں رات دن، نہیں میری سنتا خدا مگر
تو ہے نیک تیری سنیگا وہ، مجھے مانگ اسکو پکار کے

غم_زندگی سے گلہ نہیں کہ اسی سے سوز و گداز ہے
گلہ اس سے ہے جو نہ دے سکا کبھی چار لمحے بھی پیار کے

تھا ہرا بھرا جو کبھی چمن، وہی آج ڈھیر ہے خاک کا
ہیں نصیب میں مرے اب تو بس یہی تودے گرد و غبار کے

یہ جو گھر کی چھت ہے، حدود ہیں، یہ امین_حفظ و امان ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں