نگر نگر پھیلے تیرے چرچے ہیں

 

نگر نگر پھیلے تیرے چرچے ہیں
تحریر رابعہ سیماب روحی

نگر نگر پھیلے تیرے چرچے ہیں
بتا تو کتنے تیرے خرچے  ہیں
شوق  تیرے  نرالے    ہیں
اونٹ  او  ر بکری  پالے  ہے

ملکوں  ملکوں  گھومیں  ہیں   ہم
ہر  دیس کی  مٹی  چومیں  ہیں ہم
بس اپنا ہی سب بھولے ہیں   ہم
جیسے اندھے لنگڑے لولے ہیں ہم

نہ شرم و غیرت آن ہے باقی
ہے تو بس جھوٹی آن ہے باقی
جس چمن کے رکھوالے ہیں ہم
اسی چمن کو لوٹنے والے ہیں ہم
کبھی غیر کے ہاتھوں بکتے ہیں
کبھی اپنوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں
روز مرتے ہیں  روز  جیتے   ہیں
ہنس ہنس کے زہر روحی ہم  پیتے  ہیں
بم پھٹتے ہیںخود کش دھماکے ہوتے ہیں

رابعہ سیماب روحی
rabi20hotmail.com

ڈکٹیٹر
کل کے تھے جو بادشاہ
آج کے ہیں وہ گدا
گلی گلی دیں صدا
ہے کوئی ان کا پیا
تھے جو قوم کے ناخدا
ان کو یاد نہ خدا رہا

یہ جو ہیں عروج و زوال کی کہانیاں
چھپی ہیں ان میں کیا کیا نشانیاں
ہم جو بھٹک رہے ہیں راہوں میں
ہم نئے سنی ہیں  بہت  کہانیاں
کوئی آئے گا منزل پہ لے کے جائے گا
ہمیں آج تک رہیں خوش گمانیاں
تم  تو تم  نہ تھے  وہ   چارہ گر
کے بنتے ستم کشوں کے راہ پر
قوم نے امید کا دامن تھام کر
کیا تم پہ بھروسہ اے بے ہنر
کر کے رکھ دیا یوں بے آبرو سب کو
کہ چل نہ سکے کوئی سر اٹھا کر
ستم اٹھایا تھا تم نے جن معصوموں پر
آج پھیلی ہے انکی آہ للکار بن کر
شہر نگاراں

شہر نگاراں کو کیا ہے ویران کس نے
یہ بربادیوں کا کیا ہے سامان کس نے
حلقہ   در   حلقہ   شہر    د ر شہر
پھیلائے ہیں یہ دہشت گرد انساں کس نے
ہم  ہیں  مسلم  او ر امن  کے   پیامبر
لوٹا ہے اغیار نے ہم کو گھٹائی اپنی شان کس نے
جو تھے  رہبر   بنے   ہیں   وہی    رہزن
غریبوں بے سہاروں کا توڑا ہے مان کس نے
سجا  کے  اپنے  محل  او ر  شبستان چمن
مفلسوں کے گھربنائے ہیں   بیابان کس نے
کرتے تھے جو پیمان دیں گے روٹی کپڑا اور مکان
کر کے ٹھنڈے چولہے  افلاس و بھوک دی ہے کس نے
کس  سے  مانگے حساب  سیماب  قوم  کے  لہو کا
کون ہے مجرم قوم  کا  لہو  بہایا   ہے  کس نے

٤  فاقہ مستی
فاقہ مستی عام ہے یہاں
اونچا صدر کا نام ہے یہاں
غریبوں کا کیا کام ہے یہاں
کیو خوب ملک کا نظام ہے یہاں
بے ایمانی چوری کرپشن عام ہے یہاں
جو بھی ہے بس بدنام ہے یہاں
کوئی انصاف کا بول بالا نہ کرے
عدلیہ کو ملا یہ پیغام ہے یہاں
اس اندھیر نگری سے کہیں دور چلیں سیماب
چوپٹ راج میں ہمارا  کیاکام ہے یہاں

٥   غزل
نہ کوئی دل کے قریب نہ کوئی نظر کے آس پاس ہے
کسے کہیں اے حبیب کہ یہ دل بہت اداس ہے
نہ کوئی سنے گا داستان غم نہ کسی کو درد نہاں سے غرض
یہاں تو سبھی ستم شعار ہیں،یہ دل بہت اداس ہے
جو ملا ہے درد سمیٹ لو جو ملے ہیں زخم لپیٹ لو
نہ آئیں گے وہ دیکھنے ہمارا دل کہ یہ دل بہت اداس ہے
ڈھلتی شام کو شمعیں جو جلیں تو یہ دل بھی یونہی  جل اٹھا
کسیؤس میں جلے بہت کہ یہ دل بہت اداس ہے
کبھی تم نے میرے اے مہرباں سنی نہ اس دل کی داستاں
لمحہ لمحہ تڑپتا ہے یہ کہ یہ دل بہت اداس ہے
نہ کوئی آس ہے نہ کوئی پاس ہے کہ یہ دل بہت اداس ہے
ملے ہیں جو بھی غم وہی اس دل

٦ ہو موڑ پہ چیکنگ جاری ہے
ہر موڑ پہ چیکنگ جاری ہے
ہر موڑ پہ پولیس کے ناکے ہیں
پھر کیوں موت کا رقص بھی جاری ہے
ہر روز خود کش دھماکے ہیں
ہر موڑ پہ چیکنگ جاری ہے
ہر موڑ پہ پولیس کے ناکے ہیں
معصوم جانیں لرزاں ہیں
خون انساں ارزا  ں  ہے
بازار گرم ہے دہشت گردی  کا
کچھ  خوف نہیں پولیس کی وردی کا
ہر رو ز خود کش   دھماکے   ہیں
ہر موڑ پہ  چیکنگ  جاری ہے
شکار تو کوب اب تاکے ہیں
انساوں کے اڑتے کاکے ہیں
ہر موڑ پہ پولیس کے ناکے ہیں
ہر موڑ پہ چیکنگ جاری ہے۔
٧    غزل

میری بے کسی میری بے بسی
یہی  تو ہے  میری  زندگی
کہی نہ جو  کسی سے جو کبھی
وہ یہی تو ہے الم بھری زندگی
جتنے بھی اشک تھے  آنکھ میں
دل میں اتار کے وہ گزار دی یہ زندگی
صحراء درد  میں تنہا گزری یہ  زندگی
جو کسی  سیال  سے  نہ بجھ  سکی
یہ وہ آگ تھی سیماب  غم ہجر کی

 

اپنا تبصرہ لکھیں