نغمہ نہیں یہ میرے ترانے کی بات ہے

عمر فراہی

غزل

نغمہ نہیں یہ میرے ترانے کی بات ہے
سمجھو تو بس علم ہی اٹھانے کی بات ہے

آمادہُِ خروج ہے ہر ذہن کی ترنگ
تصویر انقلاب  دکھانے کی بات ہے

یوں تو ہر اک فرد ہے تحریک کی طرح
میری اذاں تو صرف جگانے کی بات ہے

ہیں پاسبان اہل حرم مطمئن کہ یوں
گلیوں میں شور چڑیوں کے آنے کی بات ہے

موسیٰ کوئ جو اٹھے تو فرعون غرق ہو
ساحل پہ کشتیوں کو جلانے کی بات ہے

تہذیب نو کے یہ بھی مساںُل ہیں اب عمر
شرم و حیا حجاب زمانے کی بات ہے

اپنا تبصرہ لکھیں