نظریہ ء پاکستان سے پاکستانی قوم تک

نظریہ ء پاکستان سے پاکستانی قوم تک


سویڈن کی ڈائری

تحریر عارف کسانہ اسٹاک ہوم

ہم نے نظریہء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔یہ الفاظ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے  17   دسمبر  سن  1971  میں سقوط ڈھاکہ کے ایک دن بعد  اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہے تھے۔انہوں نے مزید کہا یہ کامیابی نہ ہماری کامیابی ہے نہ ہماری فوجوں کی کامیابی ہے ۔یہ کامیابی ہے حق پر مبنی نظریہ کی ۔اس نظریہ کے خلاف جو باطل پر مبنی تھا۔مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد ایک  باطل پر رکھی تھی۔اور ہم جو کہتے تھے وہ حق تھا۔یہ ان کے باطل نظریہ کی شکست ہے۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر اندرا گاندھی کا یہ بیان ان کی نظریہء پاکستان کے بارے میں ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔دوسری جانب پاکستان میں یہ روش بھی موجود ہے کہ یہاں ایک قوم نہیں بلکہ کئی قومیں آباد ہیں۔اور اس کے ساتھ جب دین کی بنیاد پر مبنی نظریہ جسے دو قومی نظریہ پاکستان بھی کہا جاتا ہے اسے ترک کر کے خطہء زمین کی بنیاد پر جب  پاکستانی قوم کی اصطلاح وضع کی گئی تو نظریہء پاکستان کو ہم نے خود عملاً پس پشت ڈال دیا تھا۔نظریہ یا آئیڈیالو جی وہ بنیادی تصورات ہوتے ہیں جن پرکسی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔آئیڈیالوجی اپنے اندر شدید قوت محرکہ رکھتی ہے۔اس میں بموں سے ذیادہ طاقت ہوتی ہے۔جب ہم نظریہء پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تصورات اور آئیڈیالوجی  ہے جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔حصول مملکت کے لیے جس نظام کو منتخب کیا گیا تھا اور نظریہء پاکستان کی وضاحت بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے  مارچ انیس سو چوالیس میں علیگڑھ میں تقریر کرتے ہوئے یوں کی کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ظاہر ہے جو شخص مسلمان ہوا ہو گا وہ کلمہ طیہ پڑھ کر اور اس پر ایمان لا کر اور دائرہء اسلام میں داخل ہو ا ہو گا۔چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہء طیبہ ٹھہری۔پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوئوں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔اس کا عملی اعلان رسول پاک نے اعلان نبوت کے بعد کر دیا تھا۔کہ ابو جہل اور ابو لہب زبان و نسل ،وطن ثقافت اور کئی ایک جیسی چیزوں کے اعتبار رسول پاک سے الگ قوم  کے افراد تھے۔جبکہ سلمان فارسی صہیب روحیاور بلال حبشی مختلف زبان و نسل اور کلچر رکھنے کے باوجود اسی قوم کے فرد تھے۔جس کے ابو بکر اور حضرت علی تھے۔اسی دو قومی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہوا۔اور یوم فرقان نے واضع کر دیا کہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیااور قیام پاکستان کی پہلی اینٹ انہوں نے   24  مئی 1875   میں رکھیسرسید نے یہ شمع سیالکوٹ کے فرزند اقبال کے ہاتھوں میں دی۔یہ وہی اقبال تھا جو پہلے خاک وطن ہر ذرے کو آفتاب کہتا تھا۔اور اپنے نیشنلسٹ ہونے پر نازاں تھا پھر اقبال نے کہا ان تازہ خدائوں میں سب سے بڑا وطن ہےجو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔جب عالمگیر انسانیت کو وطنیت کی بنیاد پر تقسیم کیا جانے لگا تو علامہ اقبال نے کہایہ بت کہ تراشیدہء نوی ہے            غارت گر کا نشانہ دین نبوی ہےبازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے      اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہےنظارہء دیرین زمانے کو دکھا دے  اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دےکیونکہ اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سےقومیت اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سےاور انہوں نے قومیت کا وہی واضع تصور دیا جسے پڑھ کر اور ایمان لا کر کوئی مسلمان کہلاتا ہے۔اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیایک طرف سرسید اقبال اور جناح دین کی بنیاد پر قومیت کی وضاحت کر رہے تھے تو دوسری طرف کچھ مسلمان رہنماء جن میںعلماء بھی شامل تھے اس نظریہ کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے ہندوئوں کی ہمنوائی کی بنیاد وطن کو قرار دے رہے تھے۔اور مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک ہی قوم کا فرد کہہ  رہے تھے۔انہی علماء میں سے ایک مولانا  حسین  احمد مدنی بھی تھے۔ جو کہہ  رہے تھے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔علامہ اقبال اس وقت بستر مرگ پہ تھے اور انہوں نے اپنا آخری معرکہ وہیں سے لڑا۔جب انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی آواز سنی تو ان کے دل سے ایک چیخ نکلی  اور کہا کہ عجم ہنوز نداندرموز دیں ورنہ                   زدیوبند حسین احمدایں چا ہ بوالعجبی استسرود برسرملت کہ منبراز وطن است               چہ بے خبر از مقام محمد عربی استبہ مصطفیآ برساں خوش راہ کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اوں نہ رسیدی تمام بو الہبی استیہ نہائیت قابل غور الفاظ ہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ رسول پاک کے مقام سے بے خبر ہو کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ملت یعنی قوم وطن کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔حالانکہ یہ رسول پاک کی نسبت سے بنتی ہے۔اور ابھی تک وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائے۔یہی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور قرآن حکیم نے تو یہ  اعلان کر دیا ہے کہ جب مومنین کو زمین پر اختیار ہوتا ہے تو نظام صلواة و زکواة قائم کرتے ہیں۔( 24 / 11)اس سے مراد وہ مملکت ہے جو اسلامی نظریہ سے تشکیل پاتی ہے۔ورنہ نماز ادا کرنے اور زکواة دا ہونے کی اجازت تو ہر غیر مسلم ملک میں بھی ہے۔اس لیے زمین پر اختیار کی ضرورت نہیں۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھی بہت سے مواقع پر یہ کہا کہ ہمیں قرآن حکیم سے رہنمائی لینی چاہیے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظریہ کو پھر سے اجاگر کیا جائے تاکہ نوجوان نسل اس سے آگاہ ہو سکے کیونکہ بہت سے عناصر مملکت خداداد کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے کے درپے ہیں۔اور بانیء پاکستان کو سیکولر شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جسے وہ سیکولر جناح کہتے ہیں اور سن  19 47  تقریر کی غلط تعبیر لیتے ہیں۔میں ان پر واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تقریر کے بعد قائد اعظم تیرہ ماہ زندہ رہے۔اس سے بعد کی تقریروں میں بھی قرآن سے رہنمائی اور نظریہ ء پاکستان کا اعادہ کرتے  رہے ہیں۔11  اگست   1947   میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے  انکے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔یہ بھی حقائق کے منافی ہے ۔ چودہ اگست انیس سو اڑتالیس کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر وہ اسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہتے ہیں۔پھر اس سے پہلے جو لائی انیس سو اڑتالیس میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔سیکولر ازم کے پیامبروں سے میری یہ درخواست ہے کہ کیا وہ کوئی ایسی تحریر یا اسٹیٹ منٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں یا یہ کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔مشہور مسیحی رہنماء مسٹر جوشو افضل دین نے اپنے پمفلٹ  Rational of pakistan constitution   میں قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کہہ  دینا کہ تخلیق پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کوئی ایسی بات کہہ د ی ہے کہ جس سے اس بات کا مکان ہے کہ پاکستان کی بنیاد مہندم ہو جائے گی بالکل پاگل پن ہے قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔مختصر الفاظ میں نظریہء پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشوائوں کی اجارہ داری ہو۔جس کا جمہوری اور معاشی  نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنیٰ کے مطابق ہو۔  قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال اور جناح  نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہء  زمین کی  نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ  نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔   اس اعتبار سے کسی ایک مملکت کے رہنے والے اس مملکت کے شہری تو ہو سکتے ہیں لیکن ایک قوم کے فرد  نہیں ہو سکتے۔  لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ  اور نظریہء پاکستان کے منافی ہے۔  پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں ۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہء پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔اور کسی اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ہم نے نظریہء پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ اندرا گاندھی کی یہ خوش فہمی تھی اور اس کی آتماء کو آج بھی شانتی نہ ہو گی کیونکہ پاکستان آج بھی ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔اور دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے۔اور جس مشرقی پاکستان کو انہوں نے الگ کر کے بنگلہ دیش بنا دیا تھا۔اس نے بھی دو ہزار گیارہ میں یہ شق اپنے آئین میں شامل کر لی ہے کہ بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔مشترکہ دینی نظریات اسلامی  امت مسلمہ میں اتحد اور ایک ملت کا باعث ہوں گے۔بقول علامہ اقبال یہ ہندی وہ خراسانی  یہ افغانی وہ تورانیتو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا

4 تبصرے ”نظریہ ء پاکستان سے پاکستانی قوم تک

  1. Aw, this was a very nice post. In thought I want to put in writing like this moreover – taking time and precise effort to make an excellent article… but what can I say… I procrastinate alot and on no account seem to get something done.

اپنا تبصرہ لکھیں