ناگپور ایئر پورٹ کاوہ منظر تحریر طلحہ

ناگپور ایئر پورٹ کاوہ منظر تحریر طلحہ

ناگپور ایئر پورٹ کاوہ منظر

دن جمعرات، تاریخ /ستمبر، شہر ناگپور، مقام بابا صاحب امبیڈکر انٹرنیشنل ایئرپورٹ-منظر: -دہشت گردوں کا ایک گروپ ایک بین الاقوامی طیارے پر قابض ہے اور اسے اغوا کرنا چاہتا ہے۔ اِدھر مسلح کمانڈوز کی ایک ٹیم طیارے کو آزاد کرانے کی کارروائی کررہی ہے۔ تمام دہشت گرد اِسکل کیپس یعنی سفید گول بنی ہوئی ٹوپیوں اور لمبے کرتوں میں ملبوس ہیں۔ یعنی ان کے مسلمان ہونے میں کسی کو ذرہ برابر شبہ نہیں۔ کمانڈوز کا تعلق سٹی پولیس اور صنعتی سیکورٹی فورس سے ہے لیکن دہشت گردی یا ہائی جیکنگ کا یہ کوئی حقیقی واقعہ نہیں بلکہ ایک ڈرل یا مشق تھی اور اس کے ذریعے یہ بتایا جارہاتھا کہ جب اسلامی دہشت گرد کسی جہاز پر قبضہ کرکے اسے اڑانے یا اغوا کرنے کی کوشش کریں تو طیارے کو کس طرح بچایا جائے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیاجارہا تھا کہ طیارے اغوا کرنے والے صرف مسلم دہشت گرد ہی ہوسکتے ہیں، کوئی اور نہیں ہوسکتا ظاہرہے کہ یہ ایک، بھونڈی مگر سنگین اور انتہائی خطرناک شرارت تھی جس پر مسلمانوں کی جانب سے احتجاج بالکل قدرتی تھا۔ چنانچہ کچھ مسلم تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کو مراسلہ بھیجا سنڈے ٹائمز آف انڈیا-/ستمبر

کیا کوئی نتیجہ نکلے گا؟

لیکن اس احتجاج کاکوئی نتیجہ نکلے گا؟ آثار بتاتے ہیں کہ نہیں ، ہرگز نہیں، اس لئے کہ جو کچھ ہورہاہے، طے شدہ پالیسی کے تحت ہورہا ہے۔ اگر مسلمانوں اور حقوقِ انسانی کے گروپوں کی یہ چیخ وپکار ذرا بھی پر اثر ہوتی تو /اگست سے لگاتارپانچ دن تک کرناٹک، آندھرا اور مہاراشٹر میں /مسلم نوجوانوں کی اندھادھند گرفتاریاں عمل میں نہ آتیں۔ یہ گرفتاریاں عین اس ماحول میں ہوئیں جب دہشت گردی کے الزامات میں مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کیے جانے کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے ملک گیر سطح پر احتجاج ہورہا تھا۔ پیغام یہ ملا کہ مسلمان خواہ کتنا ہی شور مچائیں، سرکاری ایجنسیاں وہی کریں گی جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔ اور ان کی اِس کارروائی پر سوال اٹھانے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ وہ جس کسی کو یاجن افراد کو دہشت گردقرار دے کر پکڑلیں، سب کو ماننا ہوگا۔ وہ ان سے جو افسانے اور جو بیانات منسوب کریں، سب کو یقین کرنا ہوگا۔ اسی ناگپور میں چند سال قبل پولیس نے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹرس پر حملے کا منصوبہ بنانے کے الزام میں کچھ نوجوانوں کو گولیوں سے ڈھیر کردیاتھا۔ جب ذمہ دار شہریوں کے ایک گروپ نے اس پر سوال اٹھایا تو پولیس نے ان کامذاق اڑایا، ان کی تحقیر کی۔

مسلم قیادت کہاں ہے؟

ناگپور کے تازہ واقعے سے کیا یہ خیال تقویت نہیں پاتا کہ پوری مسلم کمیونٹی کی شبیہ ایک دہشت گرد فرقے کے طور پر بنائی جارہی ہے؟ ابھی تک تو یہ چیز فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں دیکھی جاتی رہی اور حساس مسلمان یہ سوچ کر کہ یہ ان کی کاروباری اور ٹی آر پی کی ضرورت ہے، ذہنی صدمہ کچھ ہلکا کرتے رہے، لیکن جب سرکاری سیکورٹی ایجنسیاں بھی یہی کام کرنے لگیں تو اسے آخر کیاکہا جائے گا جہاں تک مسلم قیادت کا تعلق ہے تو پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ منظم اور متحد شکل میں موجود ہی نہیں ہے۔ اور منتشر حلقوں کی صورت میں اگر موجود ہے بھی تو محسوس ہوتا ہے کہ تھک چکی ہے۔ بیچاری آخر کہاں تک احتجاج کرے۔ ورنہ نوجوانوں کی ظالمانہ گرفتاریاں اور ان سے منسوب بیانات اورافسانے ایسا واقعہ نہیں کہ ایک باایمان اور غیرت مند ملت اس پر اس طرح خاموش رہتی مشکل دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ صرف وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اس سوال سے کوئی غرض نہیں کہ سب کیا ہے، کیوں ہورہا ہے۔ اس کے پیچھے کون سا ذہن، کون سا منصوبہ، کون سا مقصد ہے، یہ طریقے اور حربے کہاں سے آرہے ہیں۔ اور جو لوگ مسلم ملت کے خلاف یہ سب کررہے ہیں، انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ یہ دیش بھکتی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ملک دشمنی ہے۔ اس لحاظ سے مسلم قیادت کی دہری ذمہ داری ہے۔ ملت کو اس آزمائش سے نکالنا اور ملک کو اس کے دوست نما دشمنوں سے بچانا ۔  پ ر

اپنا تبصرہ لکھیں