نارویجن معاشرے میں گھریلو زندگی اور اسکے مسائل

تحریر زرتاج صدیقی
خالق حقیقی نے جب سے یہ کائنات بنائی تب سے زندگی کے مختلف نظام ہائے زندگی وضع کیے ہیں۔ان میں سے ایک خاندانی نظام ہے۔
سورۃ الناس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ لوگوں اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اسکا جوڑا بنایا۔اور ان دونوں سے بہت مرد و وعرت دنیا میں پھیلا دیے۔اسخدا سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔اور رشتہ و قرابت کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔نبی کریم نے فرمایا نکاح میری سنت ہے۔مقصد یہ تھا کہ س خاندانی نظام کو اصولوں میں مقید کیا جا سکے۔تاکہ معاشرہ بے اہ روی کا شکار نہ ہو جائے۔نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
عاشقی جب قید شریعت میں آ جاتی ہے
تو جلوہء کثرت اولاد دکھاتی ہے
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ رشتے ناطے کرنے میں تارکین وطن کے کیا مسائل ہیں۔اور انکا کیا حل ہے۔تارکین وطن سن ستر کی دہائی میں جب ناروے آئے تو انہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا تھا۔کہیں معاشی مسائل تھے تو کہیں معاشرتی۔آہستہ آہستہ انہوں نے انہیں دور کیا۔دوسری نسل جوان ہو چکی تھی مالی طور پر بھی لوگ مستحکم ہو گئے۔بچوں کی شادی بیاہ کا مرحلہ آیا۔لوگوں نے بڑے ارمانوں سے اپنے بچوں کی شادیاں کیں۔یکایک ایک مسلہء نے سر اٹھایا، اور وہ تھا طلاق کا مسلہء۔اکثر بچے کہتے ہماری انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہو سکی اس لیے ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔والدین کے لیے یہ انتہائی پریان کن بات تھی۔بچے یہاں کی سو سائٹی سے متاثر تھے۔اس لیے وہ کسی مصالحت کے روادار نہ تھے۔وقت حاضر کا یہ نہائیت پیچیدہ مسلہء ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔میری نظرمیں اسکی ذمہ داری تارکین وطن کی پہلی نسل پر ہے۔انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت صحیح انداز سے نہیں کی۔اس میں کچھ انکی اپنی غلطیاں تھیں اور کچھ حالات کی خرابی۔وہ تلاش معاش میں اس قدر محو ہو گئیکہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجینیئر تو بنا دیا لیکن انکی اخلاقی تربیت نہ کر سکے۔انہیں اچھا انسان نہ بنا سکے صدافسوس کہ ہماری دوسری نسل کو بھی اسکا ادراک نہیں۔اہو نے بھی غیر نصابی سرگرمیو کا اتا بوجھ بچو پہ ڈال دیا ہے کہ مشی بن کررہ گئے ہیں۔میری نظر میں کچھ ٹھوس تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے اس میں بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
۱۔ سب سے پہلے والدین بچوں کو ضروریات زندگی مہیاء کرنے کے ساتھ انکی اخلاقی تربیت بھی کریں۔
بچوں کے ساتھ ڈائیلاگ بہت ضروری ہے۔
۲۔ جب بچے بلوغت کو پہنچیں تو شادی بیاہ کے معاملات میں انکی رہنمائی کریں۔ان کو بتایا جائے کہ شریک حیات کے انتخاب کے وقت حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت بھی اہم ہے۔
۳۔ بچوں کی رائے کو بھی سنا جائے اگر وہ غلط ہوں تو ان کو دلیل کے ساتھ قائل کیا جائے۔
۴۔ بچوں کو متوازن زندگی گزارنے کی ترغیب دی جائے نہ کہ انتہا پسندی کی۔
۵۔بچوں کو نئے چیلنجز کے لیے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انکے اسلاف کے بارے میں بھی بتایا جائے۔
۶۔ اپنے دین اور کلچر کی values اور روایات سے روشناس کیا جائے۔
ان تجاویز پر عمل کرنے سے پم بہت سی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

نارویجن معاشرے میں گھریلو زندگی اور اسکے مسائل“ ایک تبصرہ

  1. ما شااللہ زرتاج آپ نے بہت موثر انداز سے اپنی نوک قلم سے یہاں کے معاشرے میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل کو قرآن اور عملی طریقوں کی روشنی میں تحریر کیا ہے۔امید ہے آپ اسی طرح اپنا قلمی تعاون جاری رکھیں گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں