نارویجن وزیر اعظم بطور ٹیکسی ڈرائیور


تحریر شازیہ عندلیب
ناروے میں پاکستانی بھائیوں میں ٹیکسی ڈرائیونگ کا پیشہ بیحد مقبول ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی اس پیشہ پر چھائے ہوئے ہیں تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ان سب بھائیوں کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اب نہ صرف پاکستانی بلکہ نارویجن وزیر اعظم بھی ٹیکسی ہی چلا رہے ہیں۔جس پاکستانی کو کوئی اور کام نہ ملے وہ ٹیکسی چلا لیتا ہے۔اس لیے کئی ڈاکٹر اور انجینیرکی ڈگری کے حامل افراد بھی اس پیشہ سے منسلک ہیں کہ مگر نارویجن وزیر اعظم کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔اوسلو کی سڑکوں پر ٹیکسی چلانے والے نارویجن وزیراعظم سابق وزیر اعظم نہیں بلکہ موجودہ قائم مقام وزیراعظم ینس ستو لتن برگ ہیں جو اپنی الیکشن مہم کے سلسلے میں عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے یہ انوکھا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ایک بوڑھا شخص جب ٹیکسی میں جانے کے لیے سوار ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور کو دیکھ کر تعجب سے بولا تم نے منہ کیوں ٹیڑھا کیا ہوا ہے ؟ پھر جب ٹیکسی ڈرائیور نے اسکی جانب رخ پھیرا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اسکی شکل نارویجن وزیر اعظم یلس ستولتن برگ سے کتنی ملتی ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور بولا کیا واقعی بہت ملتی ہے ؟
مگر بوڑھا ٹیکسی مسافر یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ٹیکسی ڈرائیور کی صرف شکل ہی نہیں بلکہ آواز بھی ینس استولتن برگ سے ملتی ہے۔ارے یہ تو واقعی ینس ستولتن برگ ہی ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو روپ دھار کر اوسلو کی سڑکوں پر ٹیکسی دوڑا رہے ہیں۔ینس ستولتن برگ کے اس انوکھے طریقے پر اپوزیشن نے خوب نقطہ چینی کی ہے مگر اپوزیشن کا تو کام ہی نقطہ چینی کرنا ہے۔ویسے بقول سیاسی مبصرین کے سیاسی طور پر آربائیدر پارٹی کی پوزیشن کمزور ہے۔
اس لیے اس لیے اس بار انہیں قومی اسمبلی میں شائید توقع کے مطابق سیٹیں نہ مل سکیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے آربائیدر پارٹی نے سوشلسٹ وینسترے ( SV ) اور سینیٹر پارٹی ( S P ) کے ساتھ مشترکہ حکومت بنائی ہو ئی تھی اس اتحاد کو ریڈ گرین اتحاد کا نام دیا گیا تھا۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر یہ اتحاد ٹوٹتا نظرر آ رہا ہے۔
اب دیکھیں نو ستمبر کے بعد یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔وزیر ثقافت ہادیہ تاجک کا تعلق بھی آربائیدر پارٹی سے ہے۔ہادیہ تاجک سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے خواہ کوئی بھی بیان دیں وہ نارویجن ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی پس منظر کی بھی حامل ہیں بلکہ پاکستانیوں سے ہمدردی بھی رکھتی ہیں۔اس بات کا اظہار وہ پاکستانی معاشرتی قدروں کی حمائیت میں بیان سے کئی بار دے چکی ہیں جس کے نتیجے میں انہیں نارویجن سیاستدانوں کی سخت نقطہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ وہ ایک نو عمر سیاست دان ہیں جنہیں ابھی مزید سیاسی بصیرت اور تجربہ کی ضرورت ہے۔
آجکل ناروے میں سیاسی مہم زوروں پر ہے۔مگر اتنی خاموشی تمیز اور امن امان سے کہ ہم پاکستانیوں کو تو مزہ ہی نہیںآتا۔نہ جلوس نہ ہنگامے نہ نعرے بازی نہ وال چاکنگ نہ مخالفین پر پھبتیاں کسنا ،نہ حریفوں کو ٹھینگے دکھانا،نہ مخالف پارٹیوں سے لڑائی مار کٹائی نہ دھینگا مشتی ۔۔۔لو جی یہ بھی کوئی الیکشن ہیں!!!
نارویجن سیاستدانوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ ساری پارٹیاں اپنے اپنے نمائندوں کو مختلف تقریبات میں بھیج دیتی ہیں جہاں پارٹی کے نمائندے اپنے پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں پھر آخر میں بحث مباحثہ کرتے ہیں ۔بحث بھی کیا ٹھنڈی ٹھار نہ کوئی مرچ مصالحہ نہ گالی گلوچ!! نہ کوئی سیاستدان ایک دوسرے کے سر پہ گلاس کھینچ مارتا ہے اور نہ کرسی اٹھا کر مارنے کی کوشش کرتا ہے لو جی یہ بھی کوئی مباحثہ ہے!!!

مباحثہ دیکھنا ہو تو ہمارا دیکھیں۔ہمارے سیاستدان کیسے گرجتے ہیں جیسے جنگل میںشیر گرجتا ہے۔پھرہر پارٹی کے امید وار اورحمائیتی حسب استطاعت شیر کے نشانے کے لیے مختلف ہتھیاروں کے استعمال کی پیشکش کرتے ہیں۔ہمارے ایک بیحد مقبول سیاستدان جو مختلف مواقع پر حریفوں کو اپنے بلے سے یوںڈرایا کرتے تھے جیسے گلیوں میں گلی ڈندا کھیلنے والے بچے ایک دوسرے کوڈراتے ہیں۔اس لیڈر کا بلّا ایسا مشہور ہوا کہ ہر طرف انکی بلّے بلّے ہو گئی تاوقتیکہ کہ لیڈر شیر کا شکار ہونے سے پہلے خود ہی ایک حادثہ کا شکار ہو گئے ورنہ شیر کی تو خیر نہیں تھی پر چلو اگلی بار سہی۔مگر جیسے ہی وہ عوام کے محبوب لیڈر اپنی کرسیء حکومت پر براجمان ہوئے سارجوش و خروش دھرا کا دھرا رہ گیا۔عوام کبھی انہیں اور کبھی انکے وعدوں کو دیکھتے ہیں ۔بقول ہمارے حکمرانوں کے وعدے حدیث تو نہیں ہوتے اس بات کا اقرار تو صرف ایک حکمران نے ہی کیا تھا مگر عمل سب نے ہی کر کے دکھا دیا ہے۔مگر نارویجن سیاستدانوں کے معاملے میں ایسا نہیں گو انہوں نے حدیث و فقہہ نہیں پڑھ رکھا مگر اپنے وعدوں کی پاسداری کر کے چھوڑتے ہیں۔کاش ہمارے سیاستدان بھی ان جیسے ہو جائیں۔وعدے پورے کرنے والے سچے،کھرے اور ہمدرد نہ جانے وہ دن کب آئے گا؟؟؟
پچھلے دنوں ایک کانفرنس میں میری ملاقات آربائیدر پارٹی کی سیکرٹری سے ہوئی جسے اپنے منشور کی تشہیر کے لیے اردو صحافیوں کی ضرورت تھی۔پاکستانی سیاستدان رعناء اسلم نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے نارویجن سیاستدانوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور انکی سچائی کی معترف ہیں۔رعناء نے مزید کہا کہ ہم سب پاکستانیوں کو جو ناروے میں رہتے ہیںآربائیدر پارٹی کو ہی ووٹ دینے چائہیں کیونکہ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جس کے منشور میں خاص طو رسے پاکستانیوں اور دیگر تارکین وطن افراد کے لیے منشور موجود ہے یہ لوگ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ آربائیدر پارٹی ایک ایسا معاشرہ چاہتی ہے جو سب کے لیے ہو۔اس لیے ہم اجتماعی دولت کو طالبعلمو ں اور اساتذہ پر بیماروں اور دیکھ بھال کی ضرورت رکھنے والوں پر خرچ کریں گے۔بجائے اس کے کہ دولت مند ترین لوگوں کو ٹیکس میں کئی بلین کی چھوٹ دی جائے۔ناروے کو سب کے لیے روزگار اور محفوظ نظم و نسق کی ضرورت ہے، نہ کہ معاشی بے یقینی کی۔
ہم نے مل کر ایک ایسا ناروے تخلیق کیا ہے جو درست سمت میں بڑھ رہا ہے اور ہم ناروے کو اور آگے لے جائیں گے۔ؤربائیدر پارٹی ناروے کی سب سے بری سیاسی پارٹی ہے۔تاہم کچھ عرصہ پہلے تک بائرے کی پارتی مقبولیت کے بلند گراف کو چھو رہی تھی مگر مگر ؤربائیدر پارتی کے لیڈ ر ینس ستولتن برگ اور دیگر اراکین کی زبردست انتکابی مہم نے انہیں پھر سے مقبولیت کے بلند ترین اہداف تک پہنچا دیا۔

نارویجن شہریت رکھنے والے سب افراد ووٹ دے سکتے ہیں۔ووٹ دینے کے لیے بس یہ ضروری ہے کہ آپ شناخت نامہ ساتھ لائیں۔آپ بارہ اگست سے چھ ستمبر تک پیشگی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی دوکاندار کے پاس ایف آر پی کی نمائندہ ووٹ مانگنے گئی پاکستانی نے صاف انکار کر دیا یہ کہ کر کہ وہ ووٹ صرف آربائیدر پارٹی کو ہی دے گا کیونکہ انکی پارٹی غیر ملکیوں کے خلاف ہے۔یہ ہی درحقیقت درست رویہ ہے۔صرف قرابت داری یا واقفیت کی بناء پر ناروے میں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو دائو پر نہیں لگانا چاہیے۔اگر کوئی ہم وطن کسی ایسی پارٹی میں ہے جو غیر ملکیوں کے خلاف ہے تو خدا را اسے سپورٹ نہ کریں۔اگر کوئی جاننے والا کو ئی کولیگ کوئی دوست ایسی پارٹی میں ہے تو اسے ووٹ نہ دیں یہ ایک قیمتی چیز ہے اسے استعمال کرنے میں احتیاط کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں