میں کون ہوں؟

میں کون ہوں؟

تحریر مہتاب قدر

میں نے یہ سوال بارہا اپنے آپ سے کیا ہے مگر جواب اب تک تشفی بخش نہیں ملا۔پھر بھی جب کسی سے ملتا ہوں تو مجبورا اپنے بارے میں کچھ نہ کچھ تعارفی کلمات کہنے پڑتے ہیں،مثلا میں مہتاب قدر ہوں ۔ ۔۔کسرِ نفسی سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ” اردو کاطالب علم” ہوں حالانکہ میں ایساسمجھتا نہیں ہوں ،ضرورت پڑنے پر اچھے اچھوں کو خاطرمیں نہیں لاتا۔ویسے یہ بھی بتاتاچلوں کہ یہ مرض ابتدائی زمانے میں بہت زور پکڑرہاتھالیکن وقت اور پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت نے یہ خوش فہمی دور تو کردی مگر اندیشہ ہے کہ اس کا دور ہ دوبارہ کسی بھی وقت پڑسکتا ہے ،کہتے ہیں آدمی کو بگڑتے دیرنہیں لگتی ۔ قحط الرجا ل کے اس زمانے میں اچھے اورستھرے ذوق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ دوستی کے واسطے کم ہی میسر آتے ہیں۔ “مہتاب قدر”یہ نام میرے والدین نے نہیں رکھا بلکہ میرے ایک دوست نے رکھا وہ بھی شیرخواری کے زمانے میں نہیں بلکہ لڑکپن میں جب میں اردو لکھ پڑھ سکتاتھا۔ نام رکھائی کے لڈو اس لئے تقسیم نہ کئے جا سکے کہ دونوں کی جیبیں نیم تعمیر شدہ مکان کی طرح غیر آبادتھیں،ہوایوں کہ جب میں انگریزی میڈیم کے اسکول کی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا (یہاں یہ بھی باور کروانا مقصودہے کہ میرا ذریعہ ِ تعلیم انگریزی رہا ہے کیوں کہ اس طر ح کہنے یالکھنے سے لوگ جلد مرعوب ہوجاتے ہیں)اسی عرصے میں مجھ پر اردو کا بھوت سوار ہو چکاتھا(اچھا ہوا اردو کا بھوت ہی سوارہواکسی اور کاہوتا تو زندگی یہی کہتے کٹ جاتی کہ “ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے” )ہمارے گھر والے بلکہ گھر والی تو اب بھی یہی سمجھتی ہیں کہ ہم کو اردو نے نکمکا کررکھا ہے ورنہ ہم بھی ۔۔۔ویسے اس ابتلا کے اثرات تو پانچویں چھٹی جماعت سے ہی ظاہرہونا شروع ہوگئے تھے ،مگر باقاعدگی سے نثر و نظم لکھنے اور سناکر داد لینے کاشوق اسی مذکورہ بالا زمانے کی دین ہے ۔سو ہمارے دوست انصار نے جوعمر میں ہم سے کافی بڑے بھی تھے ، جنھیں کوئی کام کاج نہیں تھاگھر پرہی مفت کی روٹیاں کھاتے کٹتی تھی (گوکہ بعدمیں انہیں ہدایت ملی اوروہ بھی کسی فیکٹری میں کام پر لگ گئے) ہم سے ایک قلمی میگزین جاری کرنے کی تجویز پر حامی بھرلی،تجویزہماری تھی یا انکی اب اتنا یاد نہ رہا لیکن موصوف نے اپنا نام” شہاب نادر” اورہمارانام” مہتاب قدر”رکھنا طئے کیا اور اس میگزین کا نام پرواز رکھا گیا جس کے مدیر مہتاب قدراور ناشرپبلشر شہاب نادرقرارپائے۔مدیر بننے کا چسکالگا تومہتاب قدرنے شاعری کے علاوہ نثر کی طرف توجہ دی اور طنز ومزاح کے ساتھ انگریزی کہانیوں کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرلی۔ہم اسے سعادت اسلئے گردانتے ہیں کہ انگریزی ادب کے حوالے بہت مضبوط حوالے سمجھے جاتے ہیں لوگ ان کاذکراپنی تحریرو تقریر میں کرکے اپنی قابلیت کے جوہر منوانے کی کوشش کرتے ہیں سوہم نے بھی یہاں یہی کیا ہے۔الغرض ماہنامہ پرواز کے دو تین رسالے ہی جاری ہو سکے جنہیں موصوف نے بہت جی جان لگاکرمزین کئے اور ہرماہ ایک ہی نسخہ پورے حلقہ احباب میں جن کی عمریں  تا  برس رہی ہوں گی گشت کروایاجاتا تھا۔ خیر اس تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں،اب ہم اچھے خاصے( بزعم خود) شاعر ادیب مزاح نگار ،صحافی اورنہ جانے کیا کیا ہیں لیکن ہمیں آج تک کسی نے “چوں چوں کا مربہ” یا انگریزی کہاوت “جیک آ ف آل ماسٹر آف نن” نہیں کہاہے یقین نہ ہو تو آپ رازداری کے ساتھ ہمارے دوستوں اور دشمنوں سے پوچھ لیجئے ۔اگرآپ نا پوچھ سکے تو ہم ہی ایک جعلی یافیک آئی ڈی بنا کر اپنے بارے میں سروے کر سکتے ہیں اور وہ جعلی شناخت کسی نسوانی طرزکی ہو توجواب آنے میں دیربھی نہیں لگے گی مگرنتائج کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی ضروری ہےچلئے ، فی الوقت اسی کو بھگتئے کہ ہم نے ہر ہفتہ ایک کالم آپ کی بصارتوں اورمعقولیتوں کی نذر کرنے کی ٹھان لی ہے اب آئندہ پڑھنے اور اپنی رائے سے نوازتے رہنے کی نیت کرلیجئے اور اپنے ارادوں کا اظہار بھی فرمادیجئے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں