’’میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا۔‘‘

 کالم ’’ شب و روز‘‘
16ستمبر2017
عوام تو جانے دِیجیے خواص میں بھی اکثر ایسے ملیں گے جو ’ لی کوآن یو‘ کو یا تو جانتے ہی نہیں یا پھر جانتے بھی ہیں تو صرف اِتنا کہ وہ سنگاپور کا حکمراں تھا۔ ’’گزشتہ دنوںجدید سنگا پور کے بانی وزیراعظم لی کو آن یو 91 سال کی عمر میں دُنیا سے رُخصت ہو گئے۔ ‘‘یہ خبر بھی ہمارے ہاں توجہ سے نہیں پڑھی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا قاری یہ کہہ دے کہ’ اس میں توجہ کی کیا بات ہے ، حکمراں بھی سب کی طرح مرتے ہی ہیں۔‘بیشک مرتے تو سب ہیں اور سبھی کو مرنا ہے۔ مگر یہ مصرعہ تو آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ ’ ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو‘
کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا آموختہ بھی ضروری ہوتا ہے سو آج کا یہ کالم اسی ذیل میں سمجھیے۔
لیؔ کوئی تیس برس اپنے ملک کا حکمراں رہا اور ایسے ایسے کام کر گیا کہ اس کی کوئی مثال کم از کم ہمارے ’حال‘ کے پاس تو نہیں ہے۔ ذرا لیؔ کے وطن کے بارے میں اور اُس کے احوال و اقوال پڑھیے اور بتائیے کہ ۔۔۔ کیا ہم نے مبالغے سے کام لیا ۔؟
لیؔ وزیراعظم بنا تو اس وقت سنگاپور مچھروں سے بھری ہوئی ایک ساحلی بستی تھی۔ جس میں مچھیرے تھے‘ مزدور تھے اور کھوکھے اور ریڑھیاں تھیں! مدقوق‘ لاغر چینی عورتیں ٹرالیاں دھکیلتی تھیں۔ گندی پیالیوں میں یہ لوگ دن بھر چائے سڑکتے رہتے تھے! چینی‘ اِنڈین اور ملے (ملائیشیا کے اصل باشندے) آپس میں نسلی فسادات کر کے ایک دوسرے کو مارتے رہتے تھے۔ تعلیم برائے نام تھی۔ گلیوں میں پانی کھڑا رہتا تھا۔ لی نے اسے ایک صاف ستھرا‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملک بنا دِیا اور ایشیا کے سب سے بڑے مالیاتی مرکز میں تبدیل کردِیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ
’’میں تیسری دُنیا کے صحرا کے درمیان‘ پہلی دُنیا (فرسٹ ورلڈ) کا ایک نخلستان بنا رہا ہوں!‘‘
’’زبان کا اور مذہب کا تعصب پھیلانے والوں کو ہم کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
’’ آزادیٔ اظہار کو ملک کی سلامتی سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔‘‘
(واضح رہے کہ لیؔ کو آن یو نے سنگاپور کے قانون کو دُنیا کا سخت ترین قانون بنا دیا تھا مثلاً سنگاپور میں کسی دِیوار یا عوامی جگہ پر گالی لکھنے کی سزا موت تھی۔ )
صرف تین عشروں میں لیؔ نے سنگاپور کو ایشیا کا ٹائیگر۔۔۔کاغذی ٹائیگر نہیں… اصلی ٹائیگر بنا دِیا۔کُل قومی پیداوار فی کس کے اعتبار سے سنگاپور دُنیا میں تیسرے نمبر پر آ گیا۔ شہر صاف ستھرا ہو گیا۔ مذہبی جھگڑے رہے نہ نسلی! جب اعتراض ہوا کہ قوانین سخت ہیں تو لیؔ کا جواب تھا کہ سنگاپور جیسے ملک میں جہاں مختلف نسلوں کے لوگ رہتے ہوں‘ سخت قوانین لازم ہوتے ہیں۔
(یہ تمام معلومات اظہار الحق اور جاوید چودھری کے مضامین سے ماخوذ ہیں۔)
لیؔ نے کہا تھا کہ ’’ میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں جس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا، وہاں میرے مؤکل کلکتے سے کراچی تک ہوتے تھے، میں نے اُن دنوں ہندوؤں اور مسلمانوں کی نفسیات کو بہت قریب سے دیکھا، میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ، تم اگر عدالت میںگئے تو کیس ہار جاؤ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا۔آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرا دیں، میں اس کی صلح کرا دیتا تھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جب کہ اس کے برخلاف جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا، وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا۔‘‘
لیؔ کے بارے میں یہ بھی ہمیں جاننا چاہئے کہ وہ تیس سال سنگاپور کا وزیراعظم رہا! تیس سال میں اس نے اپنی جائداد میں اضافہ کیا نہ بھائی کو نہ بھتیجے کو نہ بیٹی کو اور نہ داماد کو سرکاری امور میں مداخلت کی اجازت دی۔ اس نے کوئی ذاتی کارخانہ لگایا نہ ملک سے باہر سرمایہ لے گیا۔ اس کے پاس انگلستان میں محل تھا نہ فرانس میں ،نہ امریکہ میں! وہ بڑی سے بڑی دعوت میں بھی نوڈل کی ایک پلیٹ یا پیالے میں تھوڑے سے چاول لے کر کھا لیتا!۔۔۔۔۔ اس کا ایک ہی شوق تھا‘ زندگی کا ایک ہی مقصد تھا‘ ایک ہی دُھن تھی! کہ سنگاپور کو دُنیا کے لیے قابلِ رشک ملک بنا دے۔ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گیا۔!۔۔۔۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف سنگاپور کے دورے پر جب لیؔ کوآن یو سے ملے اور کہا کہ ہمیں بھی وہ گُر بتائیے کہ ہم بھی اپنے ملک کو سنگا پور جیسا بنانے کی کوشش کریں۔؟
لی ؔ سے نوازشریف کو جو جواب ملا، وہ بھی توجہ طلب ہے۔ وہ جواب یوں تھا:
آپ لوگ کبھی ایسا نہیں کر سکتے کہ آپ کی آئیڈیا لوجی میں دُنیا تو ایک حقیر ترین چیز ہے ۔ ظاہر ہے جو چیز حقیر ہو اس پر ہم صرف تھوک سکتے ہیں۔(مفہوم)
اس جملے پر ہم سوچتے رہ گئے کہ وا قعی ہم اب تک دُنیا پر تھوک ہی ر ہے ہیں اور دوسری طرف اس کی ضد یہ ہے کہ دُنیا کی لذت ، دُنیا کی خواہش، دُنیا کی طلب ہمارے دلوں میں بسی ہوئی ہے بلکہ اس میں تو ہم ایک دوسرے کو بھی قربان کرنے پر آمادہ ہیں ۔
تو جناب !یہ’ لی کو آن یو‘ کچھ ایسا کر کے رُخصت ہوا ہے کہ اس پر تاریخ اپنے دَر نہ کھولے تو تعجب ہوگا۔ جاوید چودھری کی اس دعا کو ہم بھی دُہرا رہے ہیں کہ ’’ ہمارے ہاں بھی کوئی لیؔ پیدا ہوجائے۔ اللہ کوئی ایک لی ہم میں بھی اُتار دے۔‘‘
ورنہ تو ہم فخرو غرور کی ’ چیونگم ‘چباتے ہوئے اپنے انجام کو پہنچ ہی رہے ہیں۔ ( قارئین کےلئے یہ بھی واضح ہوجائے کہ سنگاپور میں چیونگم کھانے پر امتناع ہے) لی ؔ کی روایت کردہ’’۔۔۔۔۔۔۔میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ کے مدنظرہم نے اپنی طرف دیکھا تو پتہ چلا کہ واقعی ہم پوری زندگی مقدمہ ہی لڑ رہے ہیں اور اگر ہم نے اب بھی لیؔ جیسے لوگوں سے کوئی سبق نہیں لیا تو ہماری آئندہ نسل بھی مقدمہ ہی لڑتی رہے گی۔ خدایا ۔۔۔! ایک لیؔ ہم میں بھی ۔۔۔۔تٗو تو ہر عمل پر قادرہے۔
دُعا کے یہ الفاظ ہمارے تصور ہی میں تھے کہ وادیٔ ضمیر میں یہ جملے گونجے ۔۔۔۔۔۔’’ لیؔ جیسے قائد کو تم برداشت بھی کر سکو گے ۔؟
تم میں تو ہر فرد لیؔ بننے کی کوشش میں مبتلا ہے۔ سب حا کم کا منصب چاہتے ہیں، کوئی محکوم نہیں بننا چاہتا ۔
سو یاد رکھو کہ جیسے تم رہوگے ویسے ہی تم کو حکمراں ملیں گے۔۔۔!!‘‘
ندیم صدیقی

اپنا تبصرہ لکھیں