میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا

مزاحیہ مضامین
علیم خاں فلکی
اردو۔ ۔۔ فرضِ کفایہ
کبھی آپ نے کسی مفلس کا ایسا جنازہ دیکھا ہو گاجس میں پانچ دس رشتہ داروں کے علاوہ جنازہ اُٹھانے کوئی نہیں ہوتا۔ قبرستان بہت دور ہوتا ہے اور لوگ دور سے اِسے دیکھتے ہیں ایک دو آدمی سر پر دستی باندھ کر دو چار قدم ساتھ بھی چلتے ہیں لیکن جنازہ اُٹھانے والے میّت اور لکڑی کے جنازے کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے تھک جاتے ہیں لیکن قبرستان تو بہرحال جانا ہی ہے۔
آج اردو کے لیے جو لوگ اپنے اوقات اور توانائیاں صرف کر رہے ہیں ایک جنازے ہی کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں باقی محلہ اِسے فرضِ کفایہ سمجھتا ہے یعنی ایسا فرض جو پورے محلّے سے ایک آدمی بھی ادا کر دے تو سب کا فرض ادا ہو جاتا ہے۔
ہم لوگ کبھی سنجیدہ قاری اور سامع کی گمشدگی کا رونا روتے ہیں جب کہ ہمارا سامع اور قاری جھر جھر آنسو روتا ہوا کمزور پروگراموں کے عذاب خانوں سے رسّیاں تُڑا کر بھاگ چکا ہے۔
کبھی ہم نے ادب کے نام پر اِس کو بے ماجرا کہانیوں کو افسانہ کہہ کر سُنایا کبھی اُردو ے معلی کا بوجھ ڈال کر اُس کے کس بل نکال دیئے جس اسلوب اور الفاظ کو مولوی عبدالحق اور مولانا آزاد نے برتا اپنی قابلیت کی دھونس جمانے وہی الفاظ اور اسلوب عام قاری کو سُنا کر بے دادی کا رونا رونے لگ گئے۔
کبھی علامتوں سے بے وجود منظر دکھا کر اُس کی چشمِ بصیرت کو اور بھی نابینا کر دیا۔کبھی پردیسی تحریکات کا خراج وصول کیا اور کبھی رجحان سازی کے ادب آور ٹولے نے ادبی مافیا بن کر سچّائیوں پر شب خون مارا۔ اب ادیب اور شاعر چندے جمع کر کے اجتماعی جشنِ گریہ کا اہتمام کر رہا ہے اور مرحوم ادب کے مزار پر بیٹھا مجاوری کر رہا ہے۔
اوقاف کی جائدادوں پر قبضے کی طرح سرکاری اکیڈیمیاں اور ادارے بنا کر عرس کیطرح سالانہ پروگرام اور قوّالی کیطرح مشاعرے کروا کر ہر کوئی “میرا رنگ دے بسنتی چولا” کا دھمال ڈالنے میں مصروف ہے۔انگریزی ادب کو پڑھنے والے لاکھوں ہیں لیکن کوئی قاری یا سامع قلم اُٹھا کر ایوانِ ادب میں گُھس نہیں پڑتا۔ نہ ٹائی سوٹ میں تصویریں کھنچوا کر شائع کرواتا ہے۔
اردو کا قاری کہاں ہے؟
وہ تو اپنی بیگمات کے پیچھے مینا بازاروں میں گم ہے۔
عورت کے حُسن کی تکمیل کے لیئے کبھی زیور اور کبھی Beauty parlour کی دوکانوں میں ساتھ گھوم رہا ہے قوم کا حُسن جو زبان ادب اور کلچر میں پوشیدہ ہے جائے بھاڑ میں۔ وہ بچّے پیدا کر رہا ہے بڑے کر رہا ہے ان کی شادیاں کر رہا ہے اور وہ بچّے پھر بچّے پیدا کر رہے ہیں انہیں بڑا کر رہے ہیں اور۔ ۔۔۔۔۔۔یہی کام تو کتّے بلّی اور چھپکلی بھی کر رہے ہیں اس کے علاوہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے کیونکہ نہ ان کو زبان سے دلچسپی ہوتی ہے نہ ادب سے اور نہ کلچر سے۔ وہ کائنات سے اپنے حصّے کی مسرّتیں حاصل کرنا جانتے ہیں کائنات کو کچھ دینا نہیں جانتے۔
٭٭٭
اپنا تبصرہ لکھیں