میرا دوست نواز شریف

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
گزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں لاہور گیاتو باتوں باتوں میں می،ں نے پوچھا آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں ویسے تو شاعر کہتا ہے سب ہی میری اولادیں ہیں کس کو اچھا کہوں آپ بتائیے کون سی کتاب پسند ہے کہنے لگے میرا دوست نواز شریف۔میں نے گزارش کی کیا ایک نسخہ مل سکتا ہے۔کتاب منگوائی اور آگے بڑھا دی مزید کہا کیا ممکن ہے کچھ لکھ دیں گے قلم پکڑا اور لکھ دیا برادرم افتخار چودھری کے لئے ،میرے لئے اعزاز تھا اور ہے بھی اپنی خواہش پر تصویر بناے کے لئے اٹھا جی چاہتا تھا ضیاء شاہد بیٹھے رہیں لیکن وہ اٹھے اور فرقان ہاشمی نے ایک خوبصورت تصویر بنا دی۔سوچا لکھوں گا۔مگر کیا کہوں آنکھ نے دوڑیں لگوائی رہیں ٹھیک ہوا تو کتاب کو پڑھا اور فون پر بات کی جناب اب جانکاری ہوئی گرچہ آپ سے پرانی یاد اللہ ہے لیکن سمجھا اب ہوں ۔ چار سو صفحات پر مشتمل آٹھ صفحات پر رنگین تصویریں اس کے علاوہ ہیں ہیں آرٹ پیپر کے استعمال خوبصورت ڈسٹ کور کے ساتھ اس کتاب کو چار چند لگا دئے قلم فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے۔رات کی بات کا مذکور ہی کیا چھوڑیں رات گئی بات گئی
کرہ ء ارض پے رہنے والوں کا المیہ ہے کہ وہ لوگ جن کے سینے میں کہانیاں تھیں داستانیں تھیں وہ سینے میں ہی رکھے زیر زمین چلے گئے۔ یہ ایک تحفہ ہے در اصل مصنف کی پاکستان کے ایک نامور شخص جس کا سرکاری نام محمد نواز شریف ہے۔جو تین بار وزیر اعظم ایک بار وزیر اعلی ایک بار وزیر خزانہ رہ چکا ہے۔میاں نواز شریف گرچہ قانونی طور پر آؤٹ ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے جن لوگوں کو پھانسی دی گئی وہ بھی ابھی تک ان ہیں لہذہ میاں صاحب کسی نہ کسی انداز سے ان ہیں اور رہیں گے۔انہیں ان رکھنے میں ان کے وہ لوگ جو ان سے استفادہ کرتے رہے اور وہ قلمکار اور اینکر پرسنز جنہیں لاکھوں روپے ماہانہ ملتے رہے ایک کردار ادا کریں گے ۔جب حکومت کوئی غلطی کرے گی یہ انہیں یاد دلاتے رہیں گے نواز شریف کے دور میں ایسا تو نہیں ہوتا تھا۔ضیاء شاہد ایک عہد کا نام ہے۔اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اسے اس کتاب میں لے آیا۔سچی بات ہے ہر صحافی کے پاس بڑی کام کی یادداشتیں ہوتی ہیں۔لیکن اظہار کے وسیلے کم لوگوں کو ملتے ہیں۔وہ شخص جس نے محنت کے وہ دن بھی گزارے جب وہ دیواروں پر لکھتا تھا اس نے حالات کی سختیوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔وقت کے ماتھے پر ایک ایسی کتاب لکھ دی جسے ہر اس شخص کو پڑھنا ہے جو سیاسی جماعتوں کو جاننا چاہتا ہے۔جو کامیاب سیاست دان بننا چاہتا ہے یا وہ جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ضیاء شاہد چاپلوس ہوتا تو زیادہ سے زیادہ وہ پرویز رشید ہوتا مگر اس نے اپنی بستی بنائی اور وہاں کا بادشاہ بن کے روز و شب گزار رہا ہے۔خدا را اسے میری جانب سے چاپلوسی نہ سمجھئے۔میں اپنی دنیا میں ایک بادشاہ ہوں لہذہ ایک بادشاہ کا دوسرے بڑے بادشاہ کے نام خط سمجھئے۔اللہ انہیں سلامت رکھے۔کتاب میں ضیاء شاہد نے اپنی یاد داشتیں تازہ کی ہیں ۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۲۰ کی تیسری اور چوتھی سطر میں ایک شخص انجینئر افتخار کا بھی ذکر ہے جس کے دوستوں کی گواہی کا بھی ذکر ہے۔میں جدہ میں تھا جب مجھے میاں صاحب کے آنے کی اطلاع ملی میری یہ خواہش ہو گی کہ اس کتاب میں لکھے گئے مندرجات کے بارے میں ذکر کروں۔میں نے جو تین چار چیزیں سیکھی ان میں ایک یہ کامیاب لوگ سیاسی پارٹیوں میں کیسے زندہ رہتے ہیں ۔میں نے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ضیاء شاہد کی اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا۔ہر شخص ذاتی معاملات کو دیکھتا ہے۔میں کوئی ربع صدی سے خبریں کے چیف ایڈیٹر سے متعارف ہوں۔پہلی تفصیلی ملاقات جدہ میں اس وقت ہوئی جب وہ عمرے کی ادائگی کے لئے سعودی عرب آئے ان کی تحریر کا معترف تو تھا ہی ان کی تقریر کا مداح بھی بنا۔یہ دور وہ تھا جب مرحوم مقصود بٹ کی قبضہ گردیوں کا زمانہ تھا سال اور تاریخیں مجھے یاد نہیں رہتے لیکن میں نے انہیں سنا ان کے اعزاز میں ایک تگڑی تقیب کا اہتمام کیا ۔کسی بھی شخص کو جاننے اور سمجھنے میں پچیس سال کوئی تھوڑا وقت نہیں ہوتا لیکن سچ پوچھئے اس طویل مدت سے زیادہ کسی کو اگر جاننا ہے تو اس کے اپنے ہاتھوں سے لکھی یادداشت سے بڑھ کر کوئی اور طریقہ نہیں ۔کتاب میں ضیاء شاہد نے بار بار لکھا کہ میاں نواز شریف کو میں نے اس وقت سمجھایا کہ آپ کو اللہ وزیر اعظم جیسے عہدے نواز رہا ہے کاروبار یہیں بند کر دیں اور خلق خدا کی خدمت پر جت جائیں جس کا جواب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی سے دلوایا جن کا کہنا تھا لؤ جی اسی خاندانی کام کیسے چھور دیں۔قارئین صرف ان ایک دو جملوں میں آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ کس طرح بزنس کیا گیا۔اس ملک کو شیر مادر سمجھ کر پیا گیا۔نواز شریف کو میں نے قریب سے دیکھا اور میرے اپنے تجربات نے مجھے اس کتاب کے حرف حرف کو سچا جانا۔میاں صاحب گاڑیوں کو رجسٹر نہیں کراتے تھے مرغی فروش کے موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ لگوا کر سرکار کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے میاں صاحب جدہ میں اشرفیہ کے ایک ہوٹل سے مفت کھانے منگواتے رہے ان کے پاس دولت کی کمی نہ تھی لیکن دولت ہونا اور اپنی ذاتی دولت سے چند روپے خرچ کرنا ایک ہمت کی بات ہے۔کتاب میں اس بات کا تذکرہ دیکھا تو اعجاز الحق یاد آ گئے انہوں نے مجھے بتایا کہ عمرے کے ٹکٹ بھی جاں نثاران نواز لے کر دیا کرتے تھے۔پاکستان کی بد قسمتی دیکھئے کہ پاکستان کے بنیادی نظرئے پر ضرب بھی اس مسلم لیگ کا صدر لگاتا ہے جس مسلم لیگ نے اس پاکستان کو بنایا ضیاء شاہد نے کتاب میں ساری کہانی لکھ دی بنگال کے شیر قراداد لاہور پیش کرتے ہیں ۔جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔اپنے دوست کو جس طرح مصنف نے بار بار یاد کرایا کہ تم کون ہو تمہاری ذمہ داری کیا ہے۔لیکن چاپلوسوں کے نرغے میں گھرا شخص اچھے مشورے دینے والے کو قہر کی نگاہ سے دیکھتا ہے مجھے اس بات کا اس وقت احساس ہوا جب جدہ کے سرور پیلیس میں دائیں ہاتھ واقعہ چھوٹے ڈرائینگ روم میں بیٹھے نواز شریف دمام سے قاضی یونس الریاض سے امین تاجر اور مرحوم قاری شکیل احمد کے ہوتے ہوئے میاں صاحب بولے چودھری صاحب آپ کیوں نے بولتے تو میں نے کہا میں تو یہاں امین تاجر اور قاضی یونس کے فرمودات جو گزشتہ دو گھنٹوں سے جاری ہیں سننے نہیں آیا بلکہ میں تو اس نواز شریف کو ملنے آیا ہوں جو ایٹمی پاکستان کا وارث ہے اور جس کا دعوی ہے کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا ہے۔بعد میں قاری شکیل نے گلہ کیا لیڈراں دے سامنے ایداں دیاں گلاں نئیں کری دی آں۔چیف ایڈیٹر خبریں جناب ضیاء شاہد نے جناب نواز شریف کو قریب سے دیکھا میں زیادہ نہیں دیکھ سکا اس لئے کہ ۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کو مجھے اپنی انہی سرگرمیوں کی وجہ سے دھر لیا گیا غدار کون میں بھی لکھ سکتا تھا مگر میری فیکس پکڑی گئی سرور پیلیس کی فیکس مشین پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے نواز شریف اٹک قلعے سے سرور پیلس قلعے میں آ گیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے خبریں میں نواز شریف کے ساتھیوں کی گرفتاری پر لکھا تھا قونصل جنرل نواز چودھری نے اپنے دفتر میں بلا کر کہا کہ آپ حد سے آگے نکل گئے ہیں سفیر پاکستان پر الزام لگا رہے ہیں میں نے کہا قسم کھائیں کہ جو پاکستانی گرفتار ہوئے ہیں وہ نواز شریف کے ساتھی نہ تھے میں تو ایک صحافی کی نظر سے میاں نواز شریف کے ساتھیوں جن میں قاری شکیل صدر مسلم لیگ سعودی عرب،عظمت نیازی کارکن مسلم لیگ آفتاب مرزا کارکن مسلم لیگ خواجہ امجد کزن خواجہ آصف کی گرفتاری پر چیخ رہا تھا کہ مجھے بھی دھر لیا گیا۔لیکن ہوا یہ کہ قاری شکیل،ارشد خان،مسعود پوری کو میاں صاحب ،شیخ رشید نے چھڑوا لیا ہمیں ذلیل و خوار کر کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔اس قسم کی خصوصیات کا ذکر ضیاء شاہد نے اپنی اس کتاب میں کیا جس کا نام میرا دوست نواز شریف رکھا گیا ہے۔بادی النظر میں اس نام سے لگتا ایسا ہے کہ نواز شریف کی تعریف کی گئی ہو گی۔شائد اسی لئے ہمارے اپنے لوگ وزیر وغیرہ اسے پذیرائی نہیں دیتے۔ان چار سو صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا جس نے نواز شریف کو جاننا ہے اسے یہ کتاب خرید کر پڑھنی چاہئے۔میں اس طرح کا تبصرہ تو نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے یہ لگے کہ انجینئر افتخار تبصرہ کر رہا ہے اور لوگ اسے تبصرہ کتب کی مد میں لے لیں۔کچھ ایسے کرداروں کا ذکر کرنا جس سے پتہ چلے یہ لوگ کس طرح حکمرانوں کو نرغے میں لے لیتے ہیں۔ملتان کے ایک بندے اور نیازیوں کے خاندان اور عمران خان کے ایک بھائی کی چاپلوسی دیکھی تو مجھے بہت سے لوگ یاد آ گئے،میں نے ایک بار ڈاکٹر غلام اکبر نیازی سے کہا تھا آپ نیازیوں میں سب سے بری خرابی ہے آپ دوسرے نیازی کو نہیں مانتے۔سعودی عرب میں مسلم لیگ کے دو دھڑے تھے ایک صدر ارشد خان جو بعد میں چل کر نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین بنا اللہ اسے جنت میں جگہ دے دوسرے قاری شکیل جو چند سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ستم ضریفی دیکھئے جدہ میں ہوتے ہوئے بھی قاری شکیل کے جنازے میں کسی شریفی خاندان کو شرکت کی توفیق نہیں ہوئی۔رنگ باز لوگ کس طرح بادشاہوں کو مٹھی میں لیتے ہیں ایک نیازی اور دوسرے ملتانی کا قصہ پڑھا تو یہ دو صدور یاد آ گئے۔جدہ ایئر پورٹ پر دونوں میاں نواز شریف کو لینے پہنچے تو میاں صاحب کے ہوتے ہوئے ارشد خان نے قاری شکیل کو گالیاں دیں کہ شکل گم کرو نواز شریف غصے میں آ گئے اور ارشد خان سے کہا تم اس سے صلح کرو جس کے جواب میں اس نے کہا آپ نے کرنی ہے کر لیں میں نہیں کر سکتا اس لئے کہ اس نے جلسے میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر ایک جیسے ہیں اس کے بعد پھکڑ تولا اور کہا کیوں اوئے۔۔۔۔فلاں مکا گل کیتی آ؟قاری شکیل چپ ہو گئے اور سر جھکا لیا میاں صاحب نے کہا قاری صاحب آپ کو شرم آنی چاہئے آج دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں بی بی بھی نہیں ہے لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ عمران کا کزن اور ملتان کا رشید ایسے بے شمار لوگ لیڈروں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں ضیاء شاہد کیسے ان کے قریب رہ سکتے تھے ۔یہاں میں نے سبق سیکھا کہ سیاست میں بہت پیسا ہونا چاہئے یا پھر آپ کو نمبر ون چاپلوس ہونا چاہئے۔لیڈر کی بات پر کبھی تنقید نہ کریں اسے اس کے موڈ کے مطابق ڈیل کریں۔چودھری شجاعت حسین نے بہترین مشورہ دیا کہ لیڈر کی ہاں میں ہاں ملائیں۔میں حیران ہوں یہ طرز سیاست فٹ کانسٹیبل ظہور الہی کا بیٹا کہہ رہا ہے جس نے دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کے ڈاھڈے بندے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں جس کی ایک مونچھ کے بل سے اکبر منڈی کے تاجروں نے گھی باہر نکال کر ذخیرہ اندوزی ختم کر دی۔ظہور الہی اور میرا تایا عبدالغفار گجر اکٹھے رہے اور سکھوں کے مشہور علاقے میں تعینات رہے۔برٹش راج کے پولیس مین دوست تھے۔یہ ایک ایسی رسم سی چل نکلی ہے کہ آپ خلوص نیت سے مشورہ دیں تو آپ کو آہستہ آہستہ دور کر دیا جاتا ہے جس کول کمیٹی کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے وہ نہ کسی آئین کا حصہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی بھی لحاظ سے قانونی۔جو کول ہوا اسے بٹھا لیا شائد اسی لئے کسی نے اسے کروڑ کمیٹی کا لقب بھی دیا تھا۔یہ در اصل ان لوگوں کا گروہ ہوتا ہے جو ہم نواؤں پر مشتمل ہوتا ہے جن کا کام صرف ہاں میں ہاں ملانا ہوتا ہے۔اس قسم کے تماشے ہر پارٹی میں ہوتے ہیں۔نائب صدور کی ان گنت تعداد بھی ایک لطیفے سے کم نہیں۔ایک بار شیخ رشید کسی وجہ سے میاں صاحب سے ناراض ہو گئے انہیں منانے کی کوشش ہوئی دوسرے روز اخباری خبر تھی کہ وہ نائب صدر بن گئے ہیں۔شیخ رشید واحد سیاست دان ہے جو بہت سی آوازوں میں اپنی الگ آواز رکھتا
ہے۔جب معاملہ خراب ہوتا ہے تو کہہ دیتا ہے میں نے کہا نہیں تھا؟ ان کی ایک بات کا پڑھ کر احساس ہوا کہ بندہ تیز ہے۔میرے پنڈی کی پہچان ہے وہ بات مزے کی لگی جب چوٹی زیریں میں قافلہ گیا تو ضیاء شاہد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تم نے تو الیکشن نہیں لڑنا مجھے نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہو کر تصویر بنانے دے۔وہ بہت زیرک شخص ہے پوری پی ٹی آئی کو لتاڑتا ہے صرف ایک عمران خان کی تعریف کر کے کام بنا رکھا ہے۔دیکھ لیں اپنی پسند کی وزارت نہ ملنے کے باوجود ریلوے کے ہر اسٹیشن کو جلسہ گاہ بنا لیا ہے۔
میرا دوست نواز شریف نام رکھتے وقت ضیاء شاہد شائد بھول گئے کہ بادی النظر میں یہ کتاب نواز شریف کی مدح سرائی سمجھی جائے گی لیکن نواز شریف کی شخصیت کے بے شمار پہلو واضح ہوئے ہیں۔یہ ایک تجزیاتی رپورٹ ہے اسے پوسٹ مارٹم بھی کہہ لیجئے۔نواز شریف کی
ایک خوبی ہے وہ مشکل وقت کے دوستوں کو یاد رکھتا ہے انہیں نوازتا ہے۔اس بوڑھے ڈپٹی سیکرٹری نے ضیاء شاہد سے بلکل سچ کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ لوگوں نے مل کر کیا سے کیا بنا لیا اور تم کہاں کھڑے ہو۔ جن لوگوں نے ایک نواز شریف سے بنائی اور باقیوں کو آنکھیں دکھائیں وہ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔کہتے ہیں مفت کے مشورے دینے والوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔لوگ مناسب وقت پر مناسب واردات ڈالتے ہیں۔رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید پیپلز پارٹی کی آنکھوں کے تارے تھے وہ یہاں بھی آئے سرمہ بنے رہے۔جو لوگ ضمیر کے قیدی تھے انہیں بڑی سزائیں بھگتنا پڑیں۔اس کتاب پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ایک متوسط طبقے کے ایک شخص جس کی ماں نے اسے دین سکھایا جس کے باپ نے محنت کر کے پوزیشن حاصل کی اس کی اولاد جس کا دعوی ہے کہ وہ
حلال اور حرام میں تمیز رکھتی ہے وہ ہی یہ کتاب لکھ سکتا ہے۔ضیاء شاہد کو سمجھنا ہو تو انہیں ملنے کی بجائے اس کتاب میں ڈھونڈے۔ضیاء شاہد اگر یہ خوبیاں ہیں تو اللہ انہیں قائم و دائم رکھے اور اگر نہیں تو ان اچھے لفظوں اور بہترین تمناؤں کے صدقے پیدا کر دے۔آمین

اپنا تبصرہ لکھیں