مکافات عمل تحریر احسان شیخ

 

مکافات عمل

تحریر احسان شیخ
جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔یہ قانون قدرت ہے۔کسی بھی کامیاب معاشرے کا راز اس کے نظام عدل میں ہے۔ایسے معاشرے جن میں اس نظام کا فقدان ہے یا  ان میں توازن نہیں وہ پسماندگی،الجھن اور بے سکونی  کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں قانون قدرت  کے تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں نا اتفاقی تنائو اور درجہ بندی معاشرے کی ارتقائی منازل کو  بلندی کے بجائے پستی کی جانب لے جاتی ہے۔ہمارا وطن عزیز پاکستان اس کی بڑی مثال ہے۔ماشرتی اور معاشی درجہ بندی نے زندگی کو نا ہموار بناتے ہوئے لوگوں کے درمیان فاصلے کی ایک وسیع خلیج کو کھڑا کر دیا ہے۔اس کے نتیجے میں عدل و انصاف جو ہر شخص کا حق ہے۔وہ معاشی لحاظ سے طاقتور طبقہ نے اس سے چھین کر اسے اپنے گھر کی باندی بنا رکھا ہے۔
وقت کے دھارے کی تبدیلی سے کچھ عرصہ سے پاکستان میں عدلیہ کی جانب سے اخلاص اور نیک نیتی سے کی جانے والی کاوشوں میں معاشرے میں سماجی رویوں نے ایک کروٹ لی ہے۔اس کے نتیجے میں عدل و انصاف کو معاشرے کی بنیہادوں میں جگہ بناتے ہوئے محسوس کیا جا رہا ہے۔لیکن تبدیلی ہمیشہ قربانی مانگتی ہے۔مفاد پرستوں اور انا کے پرستاروں نے اپنی معیشت طاقت اور رتبے کی بنیاد پر اپنی من مانی کو بر سر عمل لاتے ہوئے سچائی کا تمسخر اور سچائی کے پروانوں کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
ارشاد ربّانی ہے اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک معاشرتی احیا اور ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔لیکن افسوس کہ ذمہ داران سے خدا وند کی جانب سے دی گئی عزت کا پاس نہ کیا گیا۔انہوں نے ارتقائی عمل کا رخ اپنے مفادات کی جا  نب موڑتے ہوئے اسے غلط سمت دینے کی کوشش کی۔اب مکافاتی عمل کا شکار ہو کر وہ خود ذلت اور پستیوں کی جانب جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی کا انا اہل قرار پا کروزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونا مکافات عمل کی شروعات ہے۔اگر حکومت کے دیگر کرداروں نے انکی روش سے سبق نہ سیکھا اور اپنی روش پر قائم رہے تو ہمیں ڈر ہے کہ انکا انجام بھی ایسا نہ ہو جیسا کہ جانے والے کا ہوا۔اب انہیں احساس ہو جانا چاہیے کہ انکے غلط رویوں اور سوچ نے مخلوق خدا کے لیے نہ صرف پانی بجلی کوراک اور روزمرہ اشیاء پر بند باندھ دیے بلکہ انکی عزت نف کو بھی مجروح کیا ہے۔لہٰذا اگر ارباب حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا انہیں مکافات عمل کا شکار ہو کر اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہوئے دیکھے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں