مٹاتے لوگ ہیں اپنوں کو بھی انا کے لئے

غزل
تباہ خود کو کرے کون اب وفا کے لئے
مٹاتے لوگ ہیں اپنوں کو بھی انا کے لئے
اگر ہے جرم یہاں، سر اُٹھا کے جینا بھی
جُھکا ہے سر یہ مرا، لازمی سزا کے لئے
سفر کٹھن ہے مگر تھوڑی دور ساتھ چلو
کہ ساتھ دے گا نہیں کوئی بھی سدا کے لئے
حیات اُن کی ہے جیسے حباب پانی کا
’’نہ چھیڑ ذکرِ گلِ خندہ زن خدا کے لئے‘‘
نصیب پایا ہے مہندی کی پتیوں نے عجب
سدا مٹائی گئی سرخیِ حنا کے لئے
پلک جھپکتے ہی مٹی میں مل گیا ہے بشر
نہ جانے کون سا پل طے ہوا فنا کے لئے
خیال رکھنا کہ تم سے بھی بدنصیب ہیں لوگ
اُٹھاؤ ہاتھ جو موناؔ کبھی دُعا کے لئے
Elizabeth Kurian ‘Mona’
اپنا تبصرہ لکھیں