منزلوں کی کہکشاں تبصرہ شاہ بانو میر۔پیرس

منزلوں کی کہکشاں

سفرنامہ ، شازیہ عندلیب

تبصرہ شاہ بانو میر۔پیرس

کہکشاں میں درجنوں ستارے بہت دور سے چمکتے دکھائی دیتے ہیں گویا ستاروں کا حسین چمکتا ہوا گلدستہ سیاہ آسمان پہ  جلوے بکھیرتا ہے۔ کہکشاں تو ایک ہی دکھائی دے تو انسان آسمان کی دیگر خوبصورتیاں دیکھنا بھول جاتا ہے  اتنا محو ہو جاتا ہے اس کی چمک دمک میں کہاں کہکشائیں اکٹھی ہو جائیں تو سوچیں تابِ نظارہ کہاں سے لائیں مگر دیکھ لیجئے ہم نے کہکشاں کو اکٹھا دیکھا بھی اور ان سے محظوظ بھی ہوئے  نگاہیں گو خِیرہ ہوئیں لیکن کمال کے مستقل مزاج ہیں ہم بھی مجال ہے جو جنبش کی ہو جب تک کہ ان کے مکمل دیدار سے فیضیاب نہیں ہوئے ۔آپ سب بھی سوچ رہے ہوں گے کون سے فلکیاتی سفر میں محو پرواز ہوں ۔جناب یہ آسمان کی کہکشاں کا ذکر نہیں ہے  یہ ذکر ِ خیر ہے  ناروے کی میری پیاری دوست شازیہ عندلیب کے منفرد سفر نامے کا  سفر نامے اس سے پہلے کئی نظر سے گزرے لیکن لکھنے والے حضرات کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ اور تحریر اتنی دقیق کہ مجھ جیسی بے علم دلچسپی سے پڑھنے میں ناکام رہی  شازیہ کی محبتوں بھری کتاب ملی تو سکون سے پڑھنے کا سوچ کر محفوظ کر کے رکھ دی  مگر گزرتے وقت کی طغیانی نے بتایا کہ کہ تلاطم یا تو ہماری سوچوں میں ہے یا پھر تغیرات کی وجہ ہمارا پاکستانی ہونا ہے  مسلسل معاملات میں تیزی اور حالات کا پے درپے سیاسی رخ کا تبدیل ہونا میری تمام ادبی سرگرمیوں پے اثر انداز رہا  آج سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ کسی نے اگر وقت کو بہترین انداز میں ضائع کرنا ہو تو وہ سیاست میں چلا جائے  ہر وقت کی گہما گہمی ہے اور رونق کی رونق لیکن جو لوگ سنجیدہ ہیں وہ لوگ اس گہما گہمی کی جھاگ سے جلد اکتا جاتے ہیں  اس کے اندر مقصد نظر نہیں آتا سوائے عہدوں کے جوڑ توڑ کے لہذا بہت جلد حقائق کا ادراک ہوتے ہی تخلیقی سوچ کی تباہی دیکھتے ہی بہت سے دماغ اس سے تائب ہو کر واپس اپنی دنیا کی مقصدیت میں کھو جاتے ہیں  جہاں ان کا کام ان کے وطن ان کے لوگوں کیلیئے ہے  جہاں سے وہ اپنے ملک کے لئے کوئی آواز اٹھا کر بطورِ پاکستانی ان مخدوش حالات میں کچھ نہ کچھ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں میری واپسی بھی ابھی ہوئی تو محفوظ کتابیں کھولیں بہت سا کام ہونے والا نظر آیا  سب سے پہلے شازیہ کی کتاب پکڑی اور پھر ایک پورا دن کہاں گیا کچھ پتہ نہیں چلا  عرصہ دراز کے بعد ایک خوبصورت کتاب دلکش تحریر پرسکون ماحول میں شروع کی پھر تو اسکے جادوئی انداز بیاں نے مجھے ایسا سحر میں جکڑا کہ کونسا کھانا کہاں کا کام سب بھول کر مزے سے شام 5 بجے کتاب مکمل کی اور اتنا سکون ملا اتنے دنوں بعد کتاب کی رعنائیاں نکھر کر سامنے آئیں شازیہ کے قلم کا کمال تو ہر پاکستانی مانتا ہے تحریر کس چابکدستی سے سپردِ قلم کرتی ہیں کہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ کیسے اس کو ادھورا چھوڑا جائے  جب تک آپ مکمل کتاب پڑھ نہیں لیتے میرا خیال ہے آپ سکون محسوس نہیں کرتے شازیہ نے مجھ جیسوں کو جن کی قسمت میں ابھی تک درِ مصطفی کا دیدار نہیں ہے  ان کے لئے ایسی مکمل تصویر کشی کی ہے کہ جب جب وہاں کی زیارت مقدر ہوئی تو عبادت سے لے کر شاپنگ تک کے تمام مراحل طے شدہ نقشے کی مدد سے انشااللہ بآسانی طے کروں گی  سب سے زیادہ مزا مجھے راولپنڈی میں ٹیڈی بھائی کی کہانی پڑھ کر آیا  ان کے کمرے اور انکی بیگم کے بیان کو پڑھ کر مسکراہٹ خود بخود ہی ابھر آئی لاہور کی پرانی تاریخ پھر ناشتے کی باتیں ملتان کی کہانی واقعات سب کچھ اتنا پرلطف تھا کہ کہنا مشکل ہے   میں نے کئی مقامات کو ٹِک مارک کیا تھا کہ ان کو حوالہ جات کیلیئے استعمال کرنا تھا  پڑھنے کے دوران میری دوست شبانہ چوہدری کا فون آیا میری ہوں ہاں نے ان کو مشکوک کر دیا کہ دال میں کچھ کالا ہے جو یوں ٹال مٹول کر کے بات کر رہی ہیں  ان کے پوچھنے پر بتایا کہ شازیہ کی کتاب بہت زبردست ہے وہ پڑھ رہی ہوں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی پڑھنا چاہتی ہیں  لہذا حسبِ وعدہ اس وقت وہ کتاب ان کے پاس ہے ورنہ میں مزید بہت تفصیل کے ساتھ اس کتاب کے بارے میں لکھ سکتی تھی میں نے یورپ کے مقامات کو اتنی دلچسپی سے نہیں پڑھا لیکن پاکستانی شہروں کا حال بہت توجہہ سے پڑھا شازیہ کے ساتھ جب آپ گفتگو بھی کرتے ہیں تو انداز کی سادگی عبادت کی زیادتی اور عاجزی ان کے انداز سے چھلکتی ہے  سادہ لہجہ بتاتا ہے اتنے خوبصورت تحقیقاتی دماغ اور اپنی تخلیق پر غرور نہیں کرتیں بلکہ ہر دم عاجزی انکساری کو اپنا شعار بناتی ہیں ان کی فیملی کے بارے میں پڑھ کر چنداں حیرت نہیں ہوئی ان کے ساتھ بات ہو چکی تھی ان کی گفتگو بتاتی تھی کے ان کی پرورش کے پیچھے ادبی ہاتھ ہے اور معلوماتی ماحول کے ساتھ ساتھ ہمدرد شفیق والدین بھی یقینا شازیہ کی ذہانت کو چمکانے کا باعث بنے  ان کی سسٹر کا ذکر پڑھا بڑی خوش نصیب ہوتی ہیں وہ بہنیں جن کے سامنے کوئی بڑی بہن رول ماڈل ہو ان کا گھرانہ ادبی اور روایتی خاندان لگتا ہے  یہی وجہ ہے شازیہ کے ساتھ آپ گھنٹوں باتیں کریں ایک ہی رِدہم رہے گا ایک ہی انداز رہے گا جو بتاتا ہے کہ ایسے لوگ بدلتے نہیں دوست کہتے ہیں تو نبھاتے ہیں  کمزور زرد پتوں کی طرح اڑ کر آج اسکی طرف کل اس کی طرف نہیں اڑتے پھرتے بلکہ مضبوط شجر کی طرح اپنی شاخیں فضا میں بڑہاتے ہیں  جڑیں بڑی خاموشی کے ساتھ تہہ زمین مخصوص ماحول میں ہی پھیلاتے ہیں تاکہ ان کی مضبوطی کو خطرہ لاحق نہ ہوں وہ گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ہوں شازیہ کا سفر نامہ سہل زبان میں تحریر ہے جس کو پڑھنا نسبتا دوسرے سفر ناموں کے قدرے آسان ہے  مجھے شازیہ کا تحقیقاتی انداز بہت پسند ہے ماحول کا مشاہدہ اتنی باریک بینی سے کرتی ہیں کہ کونے میں پڑی ہوئی چیز کی خوبصورتی اور افادیت بڑہا دیتی ہیں ان کی ذاتی معلومات کمال ہیں ان کا علم وسیع ہے اور قلم کا سفر جب شروع کرتی ہیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتیں  حیرت یہ ہوتی ہے کہ اتنا لمبا سفر نامہ ہے اور اس میں وہ تمام مشاہدات ہیں جو بہت سال پہلے انہوں نے کئے لیکن جس مہارت سے اور توجہہ سے انہوں نے گلیوں بازاروں کی وضاحت کی ہے وہ قابل ستائش ہے مجموعی طور پے اس سفر نامے کو بہترین کتاب کہوں گی جو آپ کو کہیں بھی کسی بھی وقت پڑھنے والے کو اپنے گردو پیش سے بے خبر کر سکتی ہے  یہ کمال جس کتاب میں ہو اس کتاب کی مصنفہ یقینا “” شازیہ عندلیب “” ہی ہو سکتی ہیں “بہت بہت مبارک ہو شازیہ پاکستانی خواتین نے شائد اس سے پہلے سفر نامہ لکھا ہو یا پھر میری نگاہ سے اوجھل رہا  یہ تو میں نے پڑھا ہے اور یہ کہنا بیجاہ نہ ہوگا کہ ایک نئی جہت ہے جس پر شازیہ نے طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے بہت خوبصورتی سے نبھایا ہے اسکو شازیہ !! کام کی تعریف کروں گی تو کم ہوگی بس یہ کہنا چاہوں گی  لاجواب بے مثالپاکستانی خواتین کیلیئے آپ نے ایک نیا رخ متعین کیا ہے جس پر آپ کے بعد جو خواتین طبع آزمائی کریں گی ان کو کہنا چاہوں گی کہ شازیہ کے اسلوب کو اپنا کر تحریر لکھیں  تا کہ وہ بھی اتنی ہی دلچسپ اور جامع ہو کہ آپ ہر کام بھول جائیں کتاب ختم ہونے تک اگلے سفر نامے کا شدت سے انتظار رہے گا

اپنا تبصرہ لکھیں