ممتا کی پکا ر

تحریر شازیہ عندلیب
pak twin
میں جب بھی کتاب کھولتی مجھے کتاب کے ورق پر دو معصوم گول مٹول بچیوں کے معصوم چہرے نظر آتے۔میں بڑی مشکل سے چند سطریں پڑھ پاتی اور انتہائی کرب سے آنکھیں موند لیتی،تو میرے کانوں میں ایک ماں کی دلخراش چیخ وپکار گونجنے لگتی۔میں ایک ماں کی تڑپتی ہوئی مامتا کے احساس سے بلبلا اٹھتی۔اف میں کہاں جائوں۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ کہ یہ دکھ دینے والی سوچیں میرا پیچھا چھوڑ دیں۔اگلے روز میرا ہائی اسکول میں اردو کا متحان تھا۔اس کے تیس اسٹڈی پوائینٹس تھے۔خدا خدا کر کے تو یونیورسٹی لیول پر اس مرتبہ اردو مضمون پڑہایا جا رہا تھا پھر جانے کب اس کی باری آتی اس کا پاس کرنا بے حد ضروری تھا کیونکہ انگلش میڈیم اسکول میں پڑہائی کی وجہ سے اردو خاصی کمزور تھی۔صرف زبان بولنی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے پھر ہی انسان کوئی کمال کر سکتا ہے ورنہ جو قومیں اپنی مادری زبان کو اہمیت نہ دیں پھر انہیں زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔مادری زبان،قومی زبان تو دل اور دماغ کی زبان ہوتی ہے اگر آپ کا دل دماغ اپنے احساسات کو محسوس نہ کر سکے تو پھر جذبوں کا بھر پور اظہار ممکن نہیں ہو سکتا۔سو اپنی اس کوتاہی کی تلافی میں اپنی ماں بولی پر عبور سے کرنا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے ہائی اسکول میں نارویجن زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے مضمون کا بھی انتخاب کیا۔مگر امتحان سے ٹھیک ایک روز پہلے ایسا واقعہ ہو گیا جس نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔مجھے اسکول ایک ضروری میٹنگ میں جانا تھا۔وہاں بچوں کے والدین بھی موجود تھے۔ایک نارویجن جوڑے کے پاس دو ننھی منی سی گول مٹول انتہائی دلکش اور معصوم بچیاںتھیں۔ا نہوں نے انہیں اٹھا رکھا تھا سفید خوبصورت لان کے فراق میں پھولے پھولے گالوں تارا سی آنکھوں اور سر پر ننھی سی پونی نے ان کی معصومیت کو چار چاند لگا دیے تھے۔مجھے وہ دونوں بہت دلکش لگیں۔ ان کی دل موہ لینے والی موہنی صورت اور معصوم حرکتوں نے میری توجہ کھینچ لی۔میں بے اختیار انہیں دیکھنے لگی۔ایک بچی اپنے باپ کی قمیض کے بٹن سے بڑی محویت سے کھیل رہی تھی جبکہ دوسری ماں کے بندوں سے کھیل رہی تھی۔وہ بچی مجھے اپنی جانب متوجہ پا کر مسکرا دی ارے یہ تو خوش اخلاق بھی ہیں۔
میں ان بچیوں کے والدین سے باتیں کرنے لگی اور ساتھ ساتھ ان کی جانب بھی دیکھتی تو وہ دونوں جواب میں ہنستی اور مسکراتی تھیں۔مگر
مجھے یہ دیکھ کر دھچکا سا لگا کہ ارے یہ تو شکل سے پاکستانی لگ رہی ہیںجبکہ ان کے والدین تو سنہری بالوں اور گوری رنگت والے نارویجن لگ رہے ہیں۔جبکہ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ یہ ان کی بچیاں ہیں۔میں پوچھ بیٹھی کہ ان کے بال کالے کیوں ہیں تب انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ بچیاں بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے سے لی ہیں۔ اس کے بعد ایک پاکستانی خاتون سے اردو میں گفتگو ہوئی ۔جب فارغ ہوئی تو وہ نارویجن جوڑا وہاں نہیں تھا۔میں نے انہیں بہت تلاش کیا مگر وہ وہاں سے جا چکے تھے۔جب میں ان سے بات کر رہی تھی وہ اندازہ نہیں کر سکے کہ میں پاکستانی ہوں مگر جیسے ہی انہوں نے مجھے اردو بولتے دیکھا وہاں سے کھسک گئے۔کیونکہ بعض انتہائی اہم کیسز میں جس میں بچوں کی جان کو خطرہ ہو انہیں ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جس کا صرف ادارے کو ہی علم ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ایسا ہی کوئی سلسلہ ہو۔
میں میٹنگ سے فارغ ہو کر شام کو گھر پہنچی تھوڑی دیر آرام کیا۔سو کر ذہن کچھ فریش ہو چکا تھا۔صبح والے واقعات اور ان کے پس منظر میں دو معصوم پاکیزہ چہرے ذہن کی سکرین پر گردش کرنے لگے۔میں چائے کا کپ ہاتھ میں لیے کتاب کھول کر اسٹڈی ٹیبل پر آ بیٹھی۔کتنا مشکل کورس تھا زبان تو اپنی ہی تھی مگر مشکل قواعد و ضوابط اور پھر صحیح لحجہ کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی جو ہم سے ذیادہ ہمارے نارویجن پروفیسر کو آتی تھی۔سر اوئی وند اس قدر شستہ اور دھیمے انداز میں اردو الفاظ کی ادائیگی کرتے ۔انکی اردو گرامر پر عبور دیکھ کر ایک عجیب سیے احساس کمتری سے بھرپور شرمندگی کا احساس گھیر لیتا۔سر اوئی وند لاہور سے اردو میں ایم اے کر کے آئے تھے۔انہوں نے اردو کے شاعر منیر نیازی کی شاگردی اختیار کی تھی ۔سر اوئی وند منیر نیازی کے اس گیت سے ایسے متاثر ہوئے کہ اردو میں ایم اے کر لیا۔وہ غزل یہ ہے
اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے
اور ہم ہیں دوستوں

اس کے علاوہ بھی دو اورپر وفیسر تھے ایک مشہور شاعر جمشید مسرور اور ایک میڈم نسیم ریاض۔
کہنے کو تو اردو زبان تھی مگر اس قدر ذیادہ کورس تھا،اردو ادب،کلاسیکی ادب اردو کی تاریخ اور اسلامی تاریخ بھی شامل تھی۔پھر نارویجن لٹریچر کے تراجم بھی تھے۔یہ سب کچھ یاد کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔اس کے ساتھ نارویجن لٹریچر کا مضمون بھی تھا۔جبکہ پچھلے برسوں میں میتھس سائینس اور ایجوکیشن کے مضامین رکھے تھے۔جاب کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول کی پڑہائی بہت چیلنج تھا۔کلاس میں میں بہت بولتی تھی سوال کر کر کے ٹیچرز کو تھکا دیتی۔جواب دینے میں بھی دیر نہ کرتی خواہ کوئی مضمون ہو اب جو خراب نمبر آئے تو سمجھو عزت خطرے میں تھی۔اس پر یہ نئی افتاد جانے کہاں سے آن ٹپکی کہ ان دو معصوم چہروں نے تو میرا چین ہی چرا لیا تھا۔میں ساتھ ساتھ پڑہتی جاتی اور ساتھ ساتھ کڑہتی جاتی۔اف یہ اتنی پیاری بچیاں کیسے ان کے پاس پہنچ گئیں؟؟ انکی ماں کا جانے کیا حال ہو گا؟؟؟ انکی جدائی میں ۔پتہ نہیں کس وجہ سے یہ لوگ انہیں اٹھا لائے کیا واقعی ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا؟؟ل یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا،مگر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے اسی وقت بچے قبضے میں کرتے ہیں جب انکی جان کو خطرہ لاحق ہو؟؟ایسا عموماً کسی کی شکائیت سے ہی انہیں پتہ چلتا ہے ۔یہ شکائیت ہمیشہ سچ نہیں ہوتی۔آخر ادارے کے لوگ شکائیت کے سچ یا جھوٹ ہونے کی تصدیق کیوں نہیں کرتے؟؟یہ سوال مجھے دیر تک پریشان کرتا رہا۔میں اپنے امتحان کے سوال جواب یاد کرنے کے بجائے اس سوال میں الجھ گئی۔
میں نے کرب سے آنکھیں موند لیںتا اچانک ایک جھماکا سا ہوا اور پچھلے ہفتے کے واقعات اچانک میرے ذہن میں گردش کرنے لگے اور جیسے زنیجیر کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں ملتی چلی گئیں آپ ہی آپ ۔اور میں اس دردناک اتفاق پر ششدر رہ گئی۔یہ اس روز کی بات ہے جب میں نے اپنی ایک دوست فریدہ کو فون کیا۔اچانک فریدہ کی جانب سے ایک دردناک چیخ کی آواز سنائی دی اس کے بعد کسی نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔۔میرے استفار پر اس نے بتایا کہ ساتھ والے پڑوسیوں کے گھر سے چیخنے کی آوازین آ رہی ہیں۔میری پڑوسن کی شادی کو ابھی پورا ایک سال بھی نہیں ہوا ۔اس کی عمر بیس سال ہے اور اس کم عمری میں اللہ نے اسے بہت ہی خوبصورت جڑواں بیٹیاں دیں۔ان کے سر میں پانی چلا گیا۔اس لیے انکا آپریشن کیا گیا۔ابھی چند روز پہلے وہ انہیں ہسپتال سے گھر لائی ہے۔یہ رات کو اکثر روتی ہیں۔جس کی وجہ سے پڑوسی ڈسٹرب ہوتے ہیں۔انہوں نے یو نہی بغیر کسی ثبوت کے بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں شکائیت لگا دی کہ انکے پڑوس میں ایک پاکستانی فیملی آباد ہے۔ان کی جڑواں بیٹیاں رات کو روتی رہتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں جان سے مارڈالیں کیونکہ پاکستانی بیٹیوں کو پسندنہیں کرتے۔جبکہ حقیقت میں یہ بات جھوٹ تھی ۔اس لیے کہ میری یہ پڑوسن تو ناروے میں ہی پلی بڑہی ہے اور یہاں پاکستانیوں جیسی سوچ نہیں کہ بیٹیاں بیٹوں سے بہتر ہیں۔وہ تو اپنی بچیوں سے اس قدر پیار کرتی تھی پھر اس کی تو پہلی اولاد تھی وہ ایسا کیوں کرنے لگی۔بچے تو روتے ہی ہیں۔مگر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے کے اہلکار آئے اور اس کی دونوں بیٹیوں کو اٹھا کر لے گئے۔وہ بیچاری روتی تڑپتی رہ گئی۔اتنی سی عمر میں اسے اتنا بڑا صدمہ جھیلنا پڑا۔اس ادارے کے اہلکار ایک دفعہ بچہ لے لیں تو مشکل سے ہی واپس دیتے ہیں۔ حیف ہے ان پڑوسیوں پر جنہوں نے بغیر کسی تصدیق کے ایک ماں کو اسکی اولاد سے جیتے جی محروم کر دیا۔ان کے گھر میں تو گویا صف ماتم بچھ گئی۔وہ جیتے جی اپنی معصوم بیٹیوں سے محروم ہو گئی۔اب جب بھی اسے اپنی بچیاں یاد آتی ہیں وہ دردناک چیخیں مار مار کر روتی ہے۔اس میں ہمارا قصور بھی تو ہے آخر ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو عام طور سے کم تر کیوں سمجھا جاتا ہے؟؟اب اگر اس بات کا رجحان کم ہو گیا ہے تو پھر اس بات کی تشہیر کیوں نہیں کی جاتی تاکہ لوگ ہمارے بارے میں مثبت سوچ رکھیں۔لیکن در حقیقت اس رجحان میں مثبت تبدیلی کی شرح بہت کم ہے۔اس لیے یہ پوری طرح سے ظاہر نہیں ہو رہا یا پھر تشہیری ادارے ہمارے منفی معاشرتی رویوں کی ذیادہ تشہیر کر رہے ہیں۔یہ فیصلہ قارئین ہی کر سکتے ہیں کہ اصل حقیت کیا ہے؟
میرا ذہن اسی واقعہ میں الجھا رہااوراسی کش مکش میں امتحان کی تیاری بڑی مشکل سے کی۔کہنے کو تو اپنی زبان کا ہی امتحان تھا مگر بیحد مشکل ایک میں اور تین ممتحن۔آدھے گھنٹے کا وقت اور پوری صدی کے اردو تاریخ و ادب کے سارے مشکل سوالات پوچھ ڈالے۔سوالات کے تابڑ توڑ حملوں کے آگے میں ڈٹ کر جوابی کاروائی کرتی رہی۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں امتحان نہیں دے رہی بلکہ جیو تیز کے چینل سے خبرنامہ نشر کر رہی ہوں۔رزلٹ میں اے گریڈ تو آ گیا مگر اس امتحان کے ساتھ ایک عجیب سی یاسیت کا احساس چین نہیں لینے دیتا تھا۔میں اکثر سوچتی کہ کاش میں اس بے بس ماں کی کوئی مدد کر سکتی۔میں اس کے پڑوسیوں کو بتاتی کہ سب پاکستانی بیٹیوں سے نفرت نہیں کرتے۔خدا را جھوٹی شکایات لگا کر مائوں کی گودیں نہ اجاڑیںمعصوم بچوں کو ممتا کی گود سے محروم نہ کریں۔نہ جانے غلط فہمی کی بناء پر کتنی ہی بے قصور مائیں اپنی ممتا کے پھول غیروں کے حوالے کر دیتی ہوں گی؟؟
نارویجن حکومت نے بچوں کی دیکھ بھال کا ادارہ بظاہر بنایا تو عوام کی فلاح کے لیے ہے ۔مگر بعض اوقات کسی کی باتوں میں آ کر محض جھوٹی شکایات پر مائوں کی گودیںاجاڑ دیتے ہیں اور گھروں کے آنگن سنسان کر دیتے ہیں۔ناروے کے قانون کے مطابق اگر کسی بچے کو مارپیٹ کی جاتی ہو یا والدین انکی پرورش میں کوتاہی کر رہے ہوں یا پھر بچے کی جان کو خطرہ ہو تو یہ محکمہ بغیر کسی نوٹس کے ایکشن لے لیتا ہے اور اٹھارہ سال سے کم عمر تمام بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے ۔پھر یہاں سے یہ بچے مختلف نارویجن فیملیزمیںپرورش کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں جو کہ ان بچوں کے خاندانوں کی ثقافت سے بالکل مختلف ہوتے ہیں لہٰذا یہ بچے نہ تو نارویجن بن پاتے ہیں اور نہ اپنی قوم کے فرد۔انکی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔جو والدین واقعی بچوں سے کسی قسم کا ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔ان پر تشدد کرتے ہیں ۔انکی صحت کا پڑھائی اور کھانے پینے کا صحیح خیال نہیں رکھتے ان کے لیے تو یہ قانون اور ادارہ ٹھیک ہے مگر بے قصور والدین کے ساتھ یہ رویہ بالکل درست نہیں۔
یہ ایک کیس نہیں ہے بلکہ ایسے کئی کیسز ہوئے ہیں جس میں محض جھوٹی شکایات ، بچوں کی غلط بیانی،یا غلط فہمی کی بناء پر کئی گھرانوں کے آنگن بچوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔گھروں سے اٹھائے جانے والے بچوں میں نارویجن والدین کے بچے بھی شامل ہیں مگر ذیادہ تعداد غیر ملکی بچوں کی ہے۔ان میں پاکستانی بچوں کی شرح ذیادہ ہے۔یہ ناروے میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک لمحہء فکریہ ہے۔اس کے سد باب کے لیے ہم سب کو مل کر سوچنا ہو گا۔اس کا حل تلاش کرنا ہو گا تاکہ ایسے واقعات میں کمی آ سکے۔ان واقعات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے پاکستانیوں کو بچوں کی تربیت نہیں کرنا آتی؟ ایسا نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو یہاں کی یونیورسٹوں اور ہائی اسکولوں میں پاکستانیوں کے بچے ٹاپ نہ کرتے۔وہ میڈیکل، انجینیر نگ اور دوسرے اعلیٰ شعبوں میں نہ نظر آتے۔
اگر آپ کے ذہن میں ان سنگین مسائل کا حل ہو تو براہ کرم اپنی رائے ہم تک پہنچائیں۔یہ بھی ایک صدقہء جاریہ ہے کہ کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اسے مصیبت سے نکالنے کیلیے اچھا قابل عمل مشورہ دیا جائے۔یقیناً ہر با شعور اور درد مند انسان یہ نیکی ضرور کرنا چاہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں