ممتاز افسانہ نگار حاجرہ مسرور کی رحلت اور حالات زندگی

ممتاز افسانہ نگار حاجرہ مسرور کی رحلت اور حالات زندگی

ممتاز افسانہ نگار حاجرہ مسرور کی رحلت اور حالات زندگی


عقیل جعفری

ا ردو کے ادبی اور علمی حلقوں میں یہ بات ابتہائی افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ برصغیر میں حقوقِ نسواں کی علمبردار اور ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012  کو کراچی میں تراسی سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ان للہ و انا الیہ راجعون ۔۔

ہاجرہ مسرور کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکزِ علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ جہاں وہ 17جنوری 1929 کو پیدا ہوئی تھیں ۔ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹرتھے۔
ہاجرہ مسرور کی پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کرگئے اور خاندان کی ذمہ داری ان کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔

والد کے انتقال کے بعد ان کا گھرانہ نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انہوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے چھ بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے اندازمیں کی۔یہ کل پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ان کی بہن خدیجہ مستور بھی اردو کی معروف ادیب تھیں۔ اردو ادب کا تذکرہ ان دونوں بہنوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ہاجرہ مسرور کے ایک توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جبکہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے

تقسیمِ ہند کے بعد ہاجرہ اپنی بہن خدیجہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اورلاہورمیں سکونت اختیار کرلی۔اس زمانے میں لاہورپاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اورخود ہاجرہ بطورکہانی و افسانہ نگاراپنا عہد شروع کرچکی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ہوچکی تھی۔

ہاجرہ نے بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں جو اپنے وقت کے معروف اردو ادبی رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی تھی۔

ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد دیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ نقوش مرتب کرتی تھیں۔ قاسمی صاحب کی دونوں ادیب بہنوں ہاجرہ اورخدیجہ سے بہت اچھی دوستی تھی۔

ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے موضوعات سماج و سیاست ، قانون و معیشت کی ناہمواریوں اور، خواتین کے استحصال کے گرد گھومتے ہیں ۔۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اردو ادب کی اس ممتاز افسانہ نگار کو حقوقِ نسواں کی علمبردار کہا جاتا ہے۔

ہاجرہ مسرور کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔۔حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر سن انیسو پچانوے میں تمغہ حسنِ کارکردگی دیا۔ انہیں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

انہوں نے انیسو پینسٹھ میں بننے والی پاکستانی فلم آخری اسٹیشن کی کہانی بھی لکھی تھی۔ یہ فلم معروف شاعر سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ انیسو اکیانوے میں لاہور کے ایک ناشر نے میرے سب افسانے کے عنوان سے شائع کیا تھا۔

افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔

چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی ان کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔

ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد دیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ نقوش مرتب کرتی تھیں۔ قاسمی صاحب کی دونوں ادیب بہنوں ہاجرہ اورخدیجہ سے بہت اچھی دوستی تھی۔

ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منفاقتوں کی کھل کرعکاسی کرتی تھیں، جس پر انہیں بھی منٹو اورعصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

اردو ادب میں ان کی شناخت روایت شکن تحریریں ہیں جو تیز دھار خنجر کی مانند معاشرے پر پڑے وہ پردے چاک کردیتی تھی، جس کی آڑ میں صنفِ نازک کا استحصال ہوتا ہے۔

سن انیس سو اکھہتر میں انہوں نے معروف صحافی احمد علی سے شادی کی۔ اس وقت وہ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔

انیسو تھہتر میں احمد علی نے بطور ایڈیٹر روزنامہ ڈان جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ اٹھائیس برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے۔ ان کا انتقال ستائیس مارچ، دو ہزار سات کو ہوا۔حاجرہ اور احمد علی کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک نوید احمد طاہر اور دوسری نوشین احمد ہیں۔

کئی برس تک لاہور میں سرگرم ادبی زندگی بسر کرنے والی ہاجرہ مسرور نے شادی کے بعد خود کو گھر تک محدود کرلیا۔ ان کی ادبی سرگرمیاں ختم ہوچکی تھیں اور وہ مکمل طور پر خانہ دار خاتون بن گئی تھیں۔

کئی دہائیوں کی گوشہ نشینی کے بعد پہلی بار، پرزور اصرار پر وہ کئی سال پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں منعقدہ تقریب ایک ادبی تقریب میں شریک ہوئیں۔یہ تقریب برِ صغیر کی معروف ادیبہ قرت العین حیدر کے اعزازمیں منعقد ہوئی تھی۔

خود کو دہائیوں سے گوشہ نشین کرلینے والی اردو کی نامور ادیب کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم ازکم سات مجموعے شائع ہوئے، ان میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل

،اندھیرے اجالے، چوری چھپے،  ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل

 

اپنا تبصرہ لکھیں